بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے احتجاج کو 3667 دن مکمل ہوگئے۔ حب چوکی سے سماجی، سیاسی کارکنان میر بشیر احمد، میر گدائی خان بلوچ اور دیگر نے کیمپ کا دورہ کرکے لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کیا۔
وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے اس موقعے پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نوجوان طبقہ کسی بھی معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں وہ قوم کے معمار اور مادر وطن کے پاسدار ہوتے ہیں اگر کسی معاشرے میں نوجوان طبقہ بیگانگی، مصلحت پسندی وار آزاد خیالی، عیش و عشرت اور منشیات جیسے مہلک امراض کا شکار ہو تو وہ معاشرہ گوناگوں مسائل میں جھکڑ کر جمود کا شکار ہوتا ہے اور معاشرے میں تخلیقی صلاحیتیں دم توڑ دیتی ہے، ذہنوں کو زنگ لگ جاتی ہے اور سوچنے کا عمل رک جاتا ہے۔
انہوں نے کہا ایک ایسا معاشرہ جہاں پرامن جدوجہد چل رہا ہوتو ایسے جدوجہد میں نوجوان خاص طور پر تعلیم یافتہ نوجوان کا کردار تعمیری اور بڑی اہمیت کا حامل ہوتا ہے وہ جدوجہد کو نہ صرف جسمانی طور پر توانائی پہنچاتے ہیں بلکہ اس کو ہر لحاظ سے توانا رکھتے ہیں مگر افسوس ہمارے یہاں الٹا ہے، ہماراتعلیم یافتہ طبقہ نہ صرف اپنے معاشرے سے لاتعلقی اختیار کیئے ہوئے ہیں بلکہ پرامن جدوجہد سے بلکل بیگانہ ہوکر اپنے قومی فرائض و ذمہ داریوں سے دور بھاگے ہوئے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت بلوچ معاشرہ حالت جنگ میں ہے مگر تعلیم یافتہ نوجوان طبقے کو سیاسی بیداری، احساس غلامی کا کوئی ادراک نہیں ہے۔ آج لالچ، خوف، آزاد خیالی اور عیش و نوش میں ڈوب کر اپنے سرزمین کے شہداء کے قربانیوں، بلوچ ماؤں، بہنوں کی آنسوؤں، چھوٹے بچوں کی آہ زاری اور بلوچی غیرت کو پس پشٹ ڈال کر یہ نوجوان طبقہ صرف بلوچ دشمن پارٹی اور سامراجی دلال پاکستان کے بدعنوان نظام اور استحکام کے لیے خام مال کے طور پر استعال ہورہے ہیں۔