وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے قیادت میں جاری لاپتہ افراد کی لواحقین کی طویل بھوک ہڑتالی کیمپ کو 3666 مکمل ہوگئے، مختلف مکاتب فکر کے لوگوں نے کیمپ اکر لواحقین سے اظہار یکجہتی کی –
کیمپ آئے وفد سے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے مخاطب ہو کر کہا کہ شہدائے بلوچستان لاپتہ افراد کی بے دریغ قربانیوں، مستقل مزاجی کے حامل سیاسی قوتوں کی انتھک جمہوری جدوجہد سفارتی کاوشوں کی بدولت لاپتہ افراد کی بازیابی تاریخ کے ایک اہم مرحلے تک پہنچ چکا ہے جو خطے اور دنیا بھر میں اہمیت اختیار کرتا جارہا ہے بلوچ سماج میں پیوست مضبوط جدوجہد جڑوں اور عالمی سطح پر تیزی سے پزیرائی پائی ہوئی بلوچ جدجہد کو دیکھ کر پاکستان ریاست اور سماجی طاقت کے اوسان خطا ہوگئے ہیں جن کے مابین بڑھتی ہوئی حالیہ قربت نئے دفائی معاہدے اور عسکری معاشی تعاون اس سوچ کا واضح ثبوت ہیں کہ کس طرح سے بلوچ پر امن جدوجہد کو قابو میں لاکر اپنے استحصالی عزائم کے سامنے قائل رکاوٹوں اور خطرات سے نمٹا جاسکے جس کے لیے ناگزیر طور پر بلوچ نسل کش کارروائیوں کے دائرہ کار اور شدت میں اضافہ کیا گیا ہے-
انہوں نے کہا کہ اب پاکستان آئین قانون کے نام پر سوال پوچھنے کی جرات تک نہیں کرسکے گا اگرچہ ان سے پہلے بھی ریاست پاکستان کو کسی انسانی حقوق کا احترام نہیں تھا مگر اب جبر کو قانونی حیثیت دی گئی ہے جس سے بلوچ معاشرے سمیت اس خطہ میں سنگین انسانی المیے نے جنم لیا ہے جس کی کڑی سانحہ توتک اور تیرہ میل دشت اور بلوچستان میں مختلف علاقوں کی اجتماعی قبروں کی حقائق کو دبانے کی کوشش کی گئی، عوام ہی سب سے بڑا ادارہ ہے لیکن پہلے اپنے عمل کی وضاحت لازمی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ قومی رہنما قومی استاد اپنے کردار ادا کریں ورنہ تاریخ کی بے رحمی سب کو نگل سکتا ہے چاہے اس میں بھی کیوں نہیں ہوں اگر صرف ایک طرف ہوکر کچھ کہنا اپنے گناہوں کو چھپانے کی مترادف ہے اب پہلے خود سے تنقیدی عمل شروع رکھنا چاہیئے تو قومی بقاء اسی میں ہے۔