کوئٹہ پریس کلب کے سامنے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے احتجاج کو 3655دن مکمل ہوگئے۔ نیشنل پارٹی کے رہنماء ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے پارٹی کے دیگر عہدیداروں اور کارکنان کے ہمراہ کیمپ کا دورہ کرکے لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی اور اپنے خیالات کا اظہار کیا جبکہ پنجگور سے سماجی کارکن داد محمد بلوچ اور خلیل بلوچ نے بھی کیمپ کا دورہ کیا۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تاریخ کا مقصد یہ نہیں ہے کہ ادھر اُدھر کے چند افراد کا تذکرہ کیا جائے بلکہ تاریخ میں اُن لوگوں کا تذکرہ کیا جاتا ہے جن سے قوم بنتی ہے جو محنت کرتے ہیں۔ بلوچ نوجوان پاکستانی حکمرانوں کی مصائب، تکالیف کو برداشت کرنے کی ہمت رکھتے ہیں بلکہ پاکستان کا ہر وار ان نوجوانوں کو زیادہ مضبوط بنا دیتا ہے وہ پرامن جدوجہد پر زیادہ استقلال کے ساتھ ڈٹ جاتے ہیں، بلوچ سماج ہر منٹ میں تبدیل ہوکر فرسودہ اور سامراجی سماجی بیماریوں سے چھٹکارہ پارہا ہے اور یہ ان نوجوانوں کی مرہون منت جو کہ عملی میدان میں پرامن جدوجہد میں حصہ لے رہے ہیں۔
انہوں نے کہا بہت سے لوگ جو بظاہر بلوچ سماج سے تعلق رکھنے ہیں پاکستانی حکمرانوں کے ساتھ وہ بھی پرامن جدوجہد سے منکر بنے ہوئے ہیں، انہوں نے اپنے دل و دماغ کے دروازے بند کرکے انہیں مقفل کردیا ہے۔ سامراج کی بے رحم تشدد اور نفسیاتی جنگ اپنوں کی منافقانہ رویے کے باوجود آج بلوچستان کے طول و عرض میں پرامن جدوجہد جاری ہے۔ بلوچستان میں لوگوں کو گرفتار یا تشدد اور حتیٰ کہ شہید کردیئے جانا معمول بنتا جارہا ہے۔
ماما قدیر نے کہا جس ملک میں آٹھ سالہ بچوں سے لے کر عام بلوچ درزی، ریڑی بان اور طالب علم کو دن دہاڑے اغواء کرکے تشدد کا نشانہ بناکر شہید کرنا ایک معمول بن گیا ہو وہاں حقوق کے لیے آواز اٹھانے پر پابندی کوئی معنے نہیں رکھتا ہے۔ غیر مہذب اقوام کے لیے پرامن جدوجہد ہمیشہ ایک المیہ رہا ہے۔