کوئٹہ: لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے احتجاج کو 3664 دن مکمل

115

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 3664 دن مکمل ہوگئے۔ مشکے سے نور بخش بلوچ، عبدامجید بلوچ سمیت دیگر افراد نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

اس موقعے پر وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اکیسویں صدی کے جدید تقاضوں کے مطابق کسی قوم کو جبراً غلام نہیں رکھا جاسکتا اور نہ ہی اس دور میں کسی کے بنیادی انسانی حقوق کو سلب کیا جاسکتا ہے۔ پاکستانی آئین، قانون اور نام نہاد جمہوریت کا راگ الاپنے والے ذات مفاد اور سیاست میں اندھے حکمران بلوچستان کے طور و عرض میں نہتے سیاسی کارکنان اور معصوم عوام کے خون سے قتل و غارت گری کی نئی تاریخ رقم کررہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان اپنی کوئی ہوئی ساکھ بحال رکھنے کے لیے بلوچستان میں خونی کاروائیوں میں شدت لائے گا بلکہ اسی طرح پورے بلوچستان میں نہ رکھنے والی نسل کشی میں تیزی لائی گئی ہے جو کوہلو، ڈیرہ بگٹی سے مکران اور بولان تک یکساں طور پر جاری ہے۔پاکستان اپنے نوآبادیاتی کاروائیوں کے لیے حکومت کو برقرار رکھے ہوئے ہیں کیونکہ انہی کے ذریعے بلوچستان کے نہتے عوام پر ظلم کا بازار گرم کیا جارہا ہے۔

ماما قدیر نے کہا پہلے سیاسی ورکروں کو لاپتہ کیا جاتا تھا اب سیاسی ورکروں پر دباؤ ڈالنے کے لیے ان کے رشتہ داروں کو غائب کیا جاتا ہے جبکہ ان میں خواتین اور بچے بھی شامل ہے۔ اب ان کاروائیوں، نسل کشی اور اغواء نما گرفتاریوں کو تحفظ پاکستان ترمیمی آرڈیننس کے نام سے لائنس بھی جاری کیا گیا ہے کہ جس کو بھی، جہاں بھی چاہے ریاستی ادارے قتل کرے یا اغواء کرکے نامعلوم مقام پر اپنی حراست میں رکھا جائے۔