کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے احتجاج کو 3653دن مکمل ہوگئے، مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے اس موقعے پر اپنے خیالات کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہلاکوچنگیزی جیسی عمل پاکستانی بالادست طبقے کا بلوچ قوم کے خلاف گہری نفرت اور عداوت کو آشکار کرتا ہے۔اس سفاکیت کا بدترین مظاہرہ سیاسی کارکنوں، طلباء، نوجوانوں، صحافیوں اور انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے ہر عمر کے بلوچ فرزندوں کو اغواء نما گرفتاریوں، گمشدگیوں کے بعد ان کی تشدد زدہ لاشیں ویرانوں میں اور کچھ اجتماعی قبروں میں دفن کرتے ہوئے کیا جارہا ہے۔ ان تمام بلوچوں کو ماورائے عدالت گرفتار کرکے ریاستی عقوبت خانوں میں شہید کردیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستانی فورسز اور خفیہ اداروں کی یہ سفاکیت کئی سوال پیدا کررہی ہے بعض حلقے حیران ہے کہ آخر وہ کونسی ایسی وجوہات ہیں کہ پاکستانی حکمران بلوچوں کو اذیت ناک طریقے سے مٹانے کے درپے ہیں اس سوال کا جواب کئی پہلوؤں کا حامل ہے۔استعماری قوتیں محکوم و غلام اقوام کو اپنے زیر قبضہ رکھنے کے لیے سب سے پہلے انہیں ذہنی طور پر غلام بنانے کی کوشش کرتی ہیں جس کے لیے وہ نظریاتی، تعلیمی اور ثقافتی ذرائع استعمال کرنے کے علاوہ مالی مفادات و مراعات سے نوازنے کے حربے بروئے کار لاتی ہیں مگر جب محکوم و غلام سماج میں احساس غلامی اور اس سے نجات کا شعور وسعت اختیار کرجائے وہاں یہ حربے ناکام ہوجاتے ہیں تو اگلا مرحلہ طاقت کا بے رحمانہ استعمال ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا یہ امر خوش آئند ہے کہ بلوچ قوم اب ذہنی طور پر غلامی سے نکل چکی ہے اور اب ماسوائے طاقت کے زور پر کی جانے والی بیرونی استعماری حکمرانی کے کسی دوسرے عنصر بلوچ کو حتمی منزل کے حصول میں بڑی رکاوٹ قرار نہیں دیا جاسکتا لیکن قابض قوتیں بھی ذہنی تبدیلی کو بھانپ چکی ہیں اس لیے وہ بلوچ قوم کی نسل کشی کو اپنی بقاء اوربالادست کا آخری چارہ خیال کررہی ہے۔