بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے احتجاج کو 3651 دن مکمل ہوگئے۔ جس میں بلوچستان کے مختلف علاقوں سے لاپتہ ہونے والے افراد کے لواحقین نے شرکت کرکے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا جبکہ احتجاج وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ کی قیادت میں کی گئی۔
کیمپ میں موجود نوشکی سے لاپتہ محمد ایوب کے والد عبداللہ نے اپنا احتجاج ریکارڈ کرتے ہوئے کہا کہ محمد ایوب کو 9 دسمبر 2018 کو نوشکی سے ساتھیوں گاڑیوں میں فورسز اور خفیہ اداروں کے اہلکار آکر اپنے ہمراہ لے گئے جبکہ محمد ایوب کو لیجانے کے بعد بھی دو دن تک ہمارے گھر کی تلاشی لی گئی لیکن اس دوران اہلکاروں کو غیرقانونی کوئی بھی چیز نہیں مل سکا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس دن سے ہم بہت پریشانی اور مشکلات کا شکار ہیں لہٰذا ہم اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے اداروں سے گزارش کرتے ہیں کہ میرے بیٹے محمد ایوب کو بازیاب کرنے میں ہماری مدد کریں۔
کیمپ میں موجود ضلع خاران کے رہائشی عبیداللہ کے لواحقین نے ان کی گمشدگی کے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ عبیداللہ بلوچ ولد حاجی برکت کو 19 جولائی 2018 کو قلات سے فرنٹیئر کور اہلکاروں نے گھر سے حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا۔
ان کے بہن نے کہا کہ عبیداللہ کے چھوٹے بچے ہیں جو اپنے والد کے انتظار میں ہیں، بھائی کے گمشدگی سے پورہ گھر پریشانی مبتلا ہے۔
عبیداللہ کے والد نے کہا کہ میرے بیٹے کو ایک سال کے عرصے سے لاپتہ کیا گیا ہے ہم کسمپرسی کی زندگی گزاررہے ہیں، عبیداللہ نے اگر کوئی جرم کیا ہے تو انہیں عدالت میں پیش کرے، حکومتی ذمہ داران سے گزارش ہے کہ میرے بیٹے کو بازیاب کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔
دریں اثنا کیمپ میں موجود لاپتہ شمس الدین کے والدہ نے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔ انہوں نے کہا کہ کوئٹہ سے 20 ستمبر 2018 کو صبح گیارہ بجے کے وقت سادہ کپڑوں میں ملبوس تقریباً آٹھ سے نو مسلح افراد نے تین گاڑیوں میں آکر شمس الدین کو اس وقت اغوا کیا جب وہ اپنے گیراج میں کام میں مصروف تھے۔
انہوں نے کہا نو مہینے گزرنے کے باوجود میرے بیٹے کے حوالے سے ہمیں کوئی معلومات نہیں مل سکی ہے، میں حکومت پاکستان سمیت ملکی اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے اداروں سے گزارش کرتی ہوں میرے بیٹے کو بازیاب کیا جائے۔