کوئٹہ: لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے احتجاج کو 3646 دن مکمل

172

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے احتجاج کو 3646 دن مکمل ہوگئے۔ کراچی ملیر سے سیاسی و سماجی کارکنان محمد عمر بلوچ، عبدالحمید بلوچ، اوستہ محمد سے بلوچستان نیشنل پارٹی کے کارکن عبدالرزاق مینگل نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی جبکہ بلوچستان کے مختلف علاقوں سے لاپتہ افراد کے لواحقین نے آکر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔

اس موقعے پر بلوچستان نیشنل پارٹی کے عبدالرزاق مینگل نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں ماما قدیر بلوچ اور ان کے ساتھیوں کو سلام پیش کرتا ہوں کہ جن کے جدوجہد کے باعث اسلام آباد سمیت حکام بالا تک لاپتہ افراد کے لیے اٹھنے والی آواز پہنچی ہے۔ اگر کسی جانور کے بچے کو کوئی اٹھائے تو وہ جانور چیختا، چلاتا ہے یہاں انسانوں کے بچے اٹھاکر غائب کیئے گئے ہیں تو ان افراد کی چیخ و پکار پر کیوں حکمران توجہ نہیں دے رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حقوق مانگنے پر ہمیں باغی کہا جاتا ہے۔ لاپتہ افراد کے لواحقین سردی، گرمی اور ہر طرح کے حالات میں بیٹھ کر یہاں اپنے حقوق مانگ رہے ہیں۔ ہم گزارش کرتے ہیں بلوچستان کے نمائندگان سے کہ وہ لاپتہ افراد کے حوالے سے آواز اٹھائے اور حکام بالاکی توجہ اس جانب مبذول کرایا جائے۔ سردار اختر مینگل نے چھ نکات پیش کیئے تھے جن پر عمران خان اور حکومت کو عمل درآمد کرنا چاہیئے۔

وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے حکمرانوں نے کہا تھا کہ بلوچستان میں فوجی آپریشن نہیں ہونگے، فوج کو واپس بلایا گیا ہے لیکن بلوچستان میں فوج خون کی ہولی کھیل رہی ہے، بلوچستان میں گذشتہ ستر سالوں سے ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں لیکن اس میں اب شدت لائی گئی ہے۔

انہوں نے کہا پاکستان نے ہوش کا دامن چھوڑ کر بلوچوں کے خلاف اودھم مچانا شروع کیا بلوچ چیختے چلاتے رہے لیکن بے حس دنیا تماشہ دیکھتی رہی، ہر طرف بلوچوں کے خون میں لت پت لاشیں انسانیت کے ضمیر کو جھنجھوڑتے رہے لیکن تہذیب یافتہ دنیا ٹس سے مس نہیں ہوئی، لاپتہ افراد کے لواحقین اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھاکر عدالتوں میں پیش ہوئے لیکن ان کی شنوائی نہیں ہوسکی۔

انہوں نے کہا کہ نہ صرف پاکستان کے فورسز اور خفیہ ادارے بلکہ مقامی ڈیتھ اسکواڈ بھی بلوچوں کے ساتھ خون کی ہولی کھیل رہے ہیں۔ آئے روز لوگوں کو اغواء کیا جاتا ہے بلکہ ان کے ساتھ وہ غیر انسانی سلوک کیا جاتا ہے جس کو سن کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ان ڈیتھ اسکواڈ گروپوں کو اس حد تک آزاد چھوڑا کیا گیا ہے کہ وہ اپنے اخرابات بھی بلوچستان کے غیور باسیوں سے پورا کرتے ہیں۔