دارالحکومت کوئٹہ میں بلوچستان ایجو کیشنل ایمپلائز یونین کے زیر اہتمام اپنے مطالبات کی حق میں دوسرے روز بھی سول سیکرٹریٹ کے قریب ہاکی چوک پردھرنا جاری رہا جس میں بلوچستان بھر سے اساتذہ سمیت سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے شرکت کرکے اظہار یکجہتی کی۔
بلوچستان ایجو کیشنل ایمپلائز یونین کے رہنماؤں نے کہا کہ اگر حکومت نے ہمارے مطالبات پر عملدرآمد نہیں کیا تو ہم مزید سخت اقدام اٹھانے پر مجبور ہونگے جس کی تمام تر ذمہ داری حکومت وقت پر عائد ہوگی اور حکومت وقت نے ہماری کسی بھی ممبر کو گرفتار کرنے کی کوشش کی تو اس کے خلاف بلوچستان بھر میں تمام تعلیمی ادارے بشمول کالجوں، ڈسٹرکٹ آفسز، ڈائریکٹوریٹ آف ایجوکیشن کی تالا بند ہوگی۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کے ثناء بلوچ، بلوچستان ڈیموکریٹک پارٹی کے عبدالحئی بلوچ، سینیٹر عثمان کاکڑ سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے احتجاج میں شرکت کرکے مظاہرین اظہار یکجہتی کی، رہنماؤں کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ بجائے اپوزیشن کے ساتھ ملکر ایک مخلص کمیٹی تشکیل دینے کے ٹویٹر پر دھمکی اور قانونی کاروائی کی بات کرکے حالات کو مزید خراب کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
سیاسی رہنماؤں نے حکومت کو مہلت دی کہ اساتذہ کے مطالبات مانے جائیں نہیں تو 25جولائی کو یہ مطالبات صرف اساتذہ کے نہیں بلکہ بلوچستان کے تمام سیاسی جماعتوں کے ہونگے۔
دوسری جانب حکومتی اراکین نے ایجو کیشنل ایمپلائز یونین کے عہدیداروں سے رات گئے تک ملاقات کی تاہم اب تک مذاکرات کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔
کوئٹہ میں اساتذہ کے احتجاج کے باعث ٹریفک کا نظام درہم برہم ہوکر رہے گیا، شہر کے مختلف علاقوں میں شدید ٹریفک جام ہوگیا اور گاڑیوں کی لمبی لمبی قطاریں لگ گئی،پرنس روڈ،لیاقت بازار،سریاب روڈ جوائنٹ روڈ سمیت مختلف علاقوں میں ٹریفک کی روانی رک گئی، شدید گرمی لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔