ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور اسکی کتاب مارشت – خالدولیدسیفی

605

ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور اسکی کتاب مارشت 

تحریر: خالدولیدسیفی

دی بلوچستان پوسٹ

ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ، بلوچستان کے قدآور ورکر نما سیاستدان ہیں، صوبائی وزیر، سنیٹر اور وزیراعلی بلوچستان رہے ہیں، علاقائی اور صوبائی سیاست کے بعد اب قومی سیاست میں ایک فعال کردار و شناخت کے مالک ہیں، ڈاکٹر صاحب لکھتے بھی ہیں، اس کا انکشاف مجھ پر اس وقت ہوا جب انہوں نے بی این ایم اور بی این ڈی پی کے انضمام کے خلاف روزنامہ انتخاب میں چھپنے والے میرے ایک کالم ” بولان کے محافظ کون؟” کے جواب میں بلوچی دنیا میں” جی جی زرے بچاں یلیں” کے عنوان سے ایک تحریر لکھی۔ تحریر کیا تھی، میرا آپریشن تھا۔
ڈاکٹر صاحب نے انتخاب میں چھپنے والے میرے کالم پر مجھ سے باالمشافہ سخت ناراضگی کا اظہار بھی کیا اور کہا کہ ” آپ ملا ہو آپ کو ہماری قوم پرستی کی سیاست کی کیا پڑی ہے، اپنا کام کرو” لیکن قوم پرستی کے معاملات میں دخل اندازی کی میری عادت ابھی تک نہیں گئی ہے، میں اب بھی انتہائی اھتمام کے ساتھ قوم پرستوں کے سیاسی اور فکری معاملات میں ٹانگ اڑائی کرتا رہتا ہوں۔۔مجھے خود نہیں معلوم اس کے اسباب کیا ہیں، اسکے اسباب شاید وہ نعرے ہوں جو ڈاکٹر صاحب اسٹیج پر بطور لیڈر لگاتے تھے اور میں نیچے بطور ورکر ” آئیگا آئیگا انقلاب آئیگا” کی صورت میں جواب دیتا تھا، خیر سے کوئی انقلاب تو نہیں آیا البتہ 1990 کو ایک ورکر اور ایک لیڈر کے راستے الگ ہوگئے اور ہمارا نظریاتی ملاپ مسجد و میخانے میں تقسیم ہوگئی۔
ڈاکٹر صاحب ذہین اور مستقبل بین سیاستدان ہیں، انہیں ادراک ہوچکا تھا کہ کوئی انقلاب نہیں آنے والا ہے، اس لئے جب سوویت یونین سے سوشلزم کا خمار اترنا شروع ہوا تو انہوں نے بھی اپنی جدوجہد کا رخ بدل لیا، اور وہ اب بھی یہی سمجھتے ہیں کہ جس طرز جدوجہد کے وہ نقیب ہیں وہی درست ہے۔۔۔یعنی انقلاب شنقلاب تو آنا نہیں ہے، اس لیے بھاگتے چور کی لنگوٹی ہاتھ آئے تو غنیمت سمجھ کر لے لینا چائیے ۔۔ڈاکٹر صاحب کے دئیے ہوئے انقلابی تصور نے البتہ کئی عرصے میرا پیچھا نہیں چھوڑا، اب بھی کسی جگہ سے روشنی کی کوئی کرن نظر آئے میں اس جگہ کو کوہ طور اور روشنی کو انقلاب سمجھ بیٹھتا ہوں۔۔۔

کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں۔

بات کچھ لمبی ہوگئی، لکھتے لکھتے میں ماضی میں کھوگیا، ماضی کے نعروں سے لبریز سارے منظر میری نظروں کے سامنے گھوم گئے، تربت چوک سے لیکر افغان ہوٹل تک، کی ساری یادوں نے میرے قلم کا رخ اپنی طرف پھیر لیا کہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ پر پہلی بار کچھ لکھ رہے ہو اور ہمیں یوں چھوڑ کر آگے نہ بڑھو، سو میں نے چند لفظ ان یادوں کودئیے، یہ یادیں ایسی ہیں کہ ان پر پوری کتاب لکھی جائے، لیکن فی الحال چند سطریں ہی سہی۔

موضوع ڈاکٹر صاحب کی سیاست نہیں بلکہ اسکی زندگی کا وہ پہلو ہے جو اکثر لوگوں کی نظروں سے اوجھل تھا، یعنی وہ ایک اچھے قلم کار بھی ہیں اور اپنی مادری زبان میں خوبصورت تحریریں لکھتے ہیں۔۔

ڈاکٹر عبدالمالک کی سیاست سے مجھے اتفاق ہے یا نہیں اسے رہنے دیں، لیکن بطور انسان وہ ہمیشہ میرے پسندیدہ رہے ہیں، پارلیمانی سیاست کے جو “اصول”( قارئین اگر اصول کو وصول بھی پڑھیں تو مجھے کوئی شکایت نہیں ہوگی) طے ہیں ان اصولوں کے اعراف میں رہتے ہوئے بھی وہ ایک وژنری سیاست پر یقین رکھنے والے انسان ہیں۔۔

دو دن قبل میں نے ڈاکٹر صاحب کو پہلی بار بطور ایک قلم کار پڑھا، اپنے والد کی طرح مسکراہٹیں بکھیرتا نیشنل پارٹی کے ضلعی صدر محمد جان دشتی نے مجھے ڈاکٹر صاحب کی کتاب، “مارشت” عنایت کی، کم و بیش 100 صفحوں کی کتاب میں نے ایک نشت میں ختم کی۔

مارشت میں ادبی و تکنیکی لحاظ سے کوئی گہرائی تو نہیں تاہم عام فہم اور سادہ زبان میں لکھے گئے افسانوں میں خیالات کی گہرائی پڑھنے والے کو سطر سطر میں محسوس ہوتی ہے، کتاب میں چھوٹے چھوٹے افسانوں کی شکل میں معاشرے کے بظاہر بڑے نظر آنے والے چہروں کو بے نقاب کیا گیا ہے۔۔۔”کوتاہ قد” سیاستدانوں سے لیکر “لچ”( ٹھگ) سیاستدانوں تک، سب کی خبر لی گئی، نہ “ملا” کو بخشا ہے نہ “ڈاکٹر” کو۔ ان کرداروں کو بھی بے نقاب کیا گیا ہے جو پیسہ، طاقت اور ” تعلقات” کی سیڑھی سے ” سیاستدان” بنتے ہیں۔

جب میں نے لچ ( ٹھگ) کے عنوان سے لکھی گئی افسانہ نما ٹحریر پڑھی تو خیال آیا کہ وہ “مجھے” کہہ رہے ہیں، مگر آگے جاکر جب انہوں نے “کوتاہ قد” سیاستدان پر لفظ باری شروع کی تو مجھے محسوس ہوا کہ وہ یہاں ” خود” سے مخاطب ہیں۔۔البتہ ” اے راجے دوا ہمیش انت” پڑھ کر مجھے لگا کہ اس کردار کے ساتھ ڈاکٹر صاحب نے کافی زیادتی کی ہے، اور اسے کچھ غلط رنگ میں پیش کیا ہے، شاید وہ کردار جواب آں غزل ڈاکٹر صاحب کو بھیج دے، کیونکہ انکے قلم کا کاٹا پانی نہیں مانگتا۔۔ڈاکٹر صاحب کیلئے دعائے خیر۔۔۔۔

“پوتاری” کے عنوان سے ایک خوبصورت تحریر شامل ہے جو شاید نئی مزاحمتی تحریک کے پس منظر میں لکھی گئی ہے یا اس میں وہ کردار آشکارا کئے گئے ہوں جو خواب بیچتے ہیں، یہ تحریر ان نوجوانوں کیلئے مددگار ہے جو میری طرح روشنی کی ہر کرن کو کوہ طور کی روشنی سمجھ لیتے ہیں۔۔

“دل ریش” کے عنوان میں انہوں نے عہد کن اور فکر نو کی ابتدائی کشمکش کا خوبصورت اور حقیقی نقشہ کھینچا ہے۔۔اور یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ عہد کن نے رخصت ہونا ہے اور فکر نو نے آنا ہے البتہ فکرنو کو عہدکن سے ایک بہت بڑی کشمکش سے گزر کر فتحیاب ہونا ہے۔۔

ان کے علاوہ اور بھی بہت سارے خوبصورت افسانے ہیں جو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں، بے سروپا معاشرتی روایات اور سماجی اخلاقیات کے منفی پہلووں کو بھی بہتر انداز میں اجاگر کیا گیا ہے، تحریروں میں ایک درد جھلکتا یے اور یہ درد قاری کو بھی اپنے ساتھ لیکر چلتا ہے۔۔

“مارشت” مجھے تو مفت ملی ہے
لیکن خرید کر پڑھنے والے بھی پشیمان نہیں ہونگے۔

ڈاکٹر صاحب کی زندگی جہد مسلسل سے عبارت ہے، اس جہد مسلسل میں کئی نشیب آئے کئی فراز گزرے، سرد و گرم چشیدہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اگر آنے والی نسلوں کیلئے اپنی آپ بیتی لکھیں تو یہ ہم سب کیلئے ایک نایاب تحفہ ہوگا اور بلوچی زبان کیلئے بھی اثاثہ تصور کیا جائیگا۔۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔