چین سنکیانگ کے مسلمان بچوں کو ان کے خاندان، مذہب اور زبان سے الگ کر رہا ہے – رپورٹ

311

ایک نئی تحقیق میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ چین جان بوجھ کر اپنے مغربی صوبے سنکیانگ کے مسلمان بچوں کو ان کے خاندان، مذہب اور زبان سے الگ کر رہا ہے۔

ایک ایسے وقت میں جب سنکیانگ میں ہزاروں افراد کو تربیتی کیمپوں میں زیر حراست رکھا جا رہا ہے، وہیں وسیع پیمانے پر ایک اور مہم کا آغاز بھی کیا گیا ہے جس میں بورڈنگ سکول تعمیر کیے جا رہے ہیں۔

بی بی سی نے اس سلسلے میں ٹھوس ثبوت اکٹھے کئے ہیں جن کی بنیاد عوامی سطح پر دستیاب دستاویزات پر ہے اور انھیں بیرون ملک مقیم افراد نے اپنی شہادتوں سے مزید سہارا دیا ہے۔

دستاویزات کے مطابق صرف ایک شہر میں ہی 400 سے زیادہ بچوں کو اپنے والدین سے الگ کیا گیا ہے۔ ان والدین کو کیمپوں یا جیلوں میں زیرِ حراست رکھا گیا ہے۔

اور اب چینی انتظامیہ اس کا تعین کر رہی ہے کہ کیا ایسے بچوں کے لیے مرکزی دیکھ بھال ضروری ہے۔

سنکیانگ میں جہاں ایک طرف مسلمانوں کی شناخت تبدیل کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں تو دوسری طرف شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ بچوں کو منظم طریقے سے ان کی جڑوں سے دور کیا جارہا ہے۔

سنکیانگ میں چین کے قانون نافذ کرنے والے ادارے سخت نگرانی کرتے ہیں اور یہاں بیرون ملک سے آئے صحافیوں کا 24 گھنٹے پیچھا کیا جاتا ہے۔ ایسے حالات میں کسی عام شہری سے اس بات کی شہادت لینا ناممکن ہے۔ لیکن چین سے باہر دوسرے ممالک، جیسے ترکی، میں ایسا کیا جا سکتا ہے۔

استنبول کے بڑے ہال میں درجنوں افراد اپنی کہانیاں سنانے کے لیے بےتاب تھے۔ ان میں سے کئی لوگوں کے ہاتھ میں اپنے بچوں کی تصاویر ہیں، جو سنکیانگ میں رہ گئے تھے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ایک ماں نے بتایا کہ ’مجھے نہیں معلوم ان (بچوں) کی دیکھ بھال کون کررہا ہے‘۔ ان کے ہاتھ میں اپنی تین بیٹیوں کی تصویر ہے۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ ۔میرا ان (بچوں) سے کوئی رابطہ نہیں

ایک اور والدہ اپنے تین بیٹوں اور ایک بیٹی کی تصویر لیے اپنے آنسو پونچھ رہی تھیں۔ انھوں نے بتایا میں نے سنا ہے انھیں ایک یتیم خانے میں لے جایا جا چکا ہے۔

بی بی سی نے اس سلسلے میں 60 انٹرویو کیے اور یہ تمام انٹرویو بچوں اور والدین کے بچھڑنے کی دکھ بھری داستان سناتے ہیں۔ اس طرح والدین اور رشتہ داروں نے تقریباً 100 بچوں کی گمشدگی کی تصدیق کرتے ہوئے مزید معلومات فراہم کی ہیں۔

یہ تمام لوگ اویغور ہیں جو ترکی النسل مسلمان ہیں اور چین کے مغربی علاقے میں آباد رہے ہیں جہاں ان کی تعداد تقریباً ایک کروڑ دس لاکھ ہے۔ وہ خود کو ثقافتی اور نسلی طور پر وسط ایشیائی علاقوں سے قریب تر دیکھتے ہیں اور ان کی زبان ترک زبان سے بہت حد تک مماثلت رکھتی ہے۔

ہزاروں اویغور تعلیم، کاروبار، رشتے داروں سے ملنے، چین میں بچوں کی پیدائش کے حوالے سے سخت قوانین یا بڑھتے ہوئے مذہبی دباؤ سے بچنے کے لیے ترکی آ چکے ہیں۔

لیکن گذشتہ تین برسوں کے دوران جب سے چینی حکومت نے ہزاروں اویغور مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو حراست میں لینا شروع کیا ہے کئی لوگ چین میں پھنس بھی گئے ہیں۔

چین کا کہنا ہے کہ اویغوروں کو ’ووکیشنل تربیتی مراکز‘ میں تعلیم دی جا رہی ہے تاکہ وہ مذہبی انتہا پسندی کا مقابلہ کر سکیں لیکن ثبوتوں کے مطابق کئی لوگ صرف اپنے مذہب کے اظہار، جیسے نماز پڑھنے یا نقاب کرنے، یا دوسرے ممالک جیسے ترکی میں بسنے والوں سے تعلقات رکھنے پر حراست میں لیے گئے ہیں۔

بیرون ملک مقیم اویغور مسلمانوں کے لیے چین واپس جانے کا مطلب حراست میں لیا جانا ہے جبکہ سنکیانگ میں رہ جانے والوں کا ان افراد سے رابطہ کرنا بھی خطرے سے خالی نہیں۔
ایک شخص نے بی بی سی کو بتایا کہ اس کی بیوی چین کی حراست میں ہے اور اب اسے ڈر ہے کہ اس کے آٹھ بچوں میں سے کوئی نہ کوئی ضرور چینی حکومت کے پاس ہوگا۔

اس نے کہا ’مجھے لگتا ہے کہ اب انھیں بچوں کے تعلیمی کیمپوں میں لے جایا جا چکا ہے۔‘
بی بی سی کی نئی تحقیق میں اسی بات کا اندازہ لگانے کی کوشش کی گئی ہے کہ چین میں ہزاروں اویغور بچوں کے ساتھ کیا ہورہا ہے۔

جرمن محقق ڈاکٹر ایڈریان زینز چین کے صوبے سنکیانگ میں اویغور مسلمانوں کی گرفتاریوں کو منظرعام پر لائے تھے۔ عوامی سطح پر موجود دستاویزات پر مبنی ان کی رپورٹ میں سنکیانگ کے بورڈنگ سکولوں کے پھیلاؤ کی مہم کے بارے میں بتایا گیا ہے۔

سنکیانگ میں بورڈنگ سکولوں کے بڑے کیمپ بنائے گئے ہیں جن میں رہائش کے لیے بڑے کمرے ہیں اور ان میں بڑی تعداد میں طلبہ کے رہنے کی گنجائش ہے۔ بڑوں کے لیے حراستی مراکز بناتے وقت ہی بڑی تعداد میں بچوں کے لیے سکول تعمیر کیے جارہے تھے تاکہ انھیں ان کے والدین سے الگ ہونے کے بعد دیکھ بھال کے لیے یہاں رکھا جا سکے۔

اور یہ سب ایک ہی اقلیت کو نشانہ بنانے کے لیے کیا جارہا ہے۔

سنہ 2017 میں سنکیانگ میں کنڈرگارٹن سکولوں میں داخل ہونے والے بچوں کی تعداد پانچ لاکھ سے زیادہ بڑھ گئی تھی۔ اس میں 90 فیصد سے زائد تعداد اویغور اور دوسرے مسلمان بچوں کی تھی۔

اس کے نتیجے میں سنکیانگ میں بچوں کے داخلے کی شرح، جو چین میں پہلے سب سے کم تھی، ملک میں سب سے زیادہ ہے۔

صرف جنوبی سنکیانگ میں، جہاں سب سے زیادہ اویغور آبادی ہے، حکام نے کنڈرگارٹن سکولوں کی تعمیر اور اپ گریڈنگ کے لیے ایک ارب 20 کروڑ ڈالر خرچ کیے ہیں۔

ڈاکٹر زینز کا تجزیہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ بڑے پیمانے پر ان تعمیرات میں رہائش کے لیے بڑے کمرے شامل ہیں۔

سنکیانگ کی تعلیم پھیلاؤ مہم کے پیچھے بھی وہی سوچ ہے جو بڑوں کی بڑی تعداد میں جیلوں میں بند کرنے کے پیچھے تھی اور اسے سے تمام اویغور اور دیگر اقلیتی بچے متاثر ہوئے ہیں چاہے ان کے والدین تربیتی کیمپوں میں ہیں یا نہیں۔

گذشتہ سال اپریل میں چین کے حکام نے آس پاس کے دیہات سے 2000 بچوں کو یچینگ کاؤنٹی نمبر چار نامی ایک بڑے بورڈنگ مڈل سکول میں منتقل کیا۔

یچینگ کاؤنٹی مڈل سکولز 10 اور 11

حکومتی پروپیگینڈے کے مطابق ان بورڈنگ سکولز کی افادیت بہت زیادہ ہے اور ‘ان کی مدد سے معاشرے میں استحکام اور امن’ لانے میں مدد مل سکتی ہے کیونکہ ‘یہ سکول بچوں کے والدین کی جگہ لے لیتے ہیں’ لیکن زینز کے مطابق ان کا مقصد مختلف ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ‘بورڈنگ سکولز اقلیتی برادریوں کی تہذیب کو یکسر تبدیل کرنے کے لیے ایک معقول ماحول فراہم کرتے ہیں۔’
بالکل ویسے ہی جیسے کیمپس میں ہوتا ہے۔ ان کی تحقیق کے مطابق ایک مہم کا آغاز کیا گیا ہے جس کے مطابق اویغور سمیت دوسری مقامی زبانوں کا استعمال سکولوں کے اندر مکمل طور پر ختم کر دیا جائے۔

کچھ سکولوں میں چینی زبان کے علاوہ کسی اور زبان کے استعمال پر اساتذہ اور طالب علموں دونوں کے خلاف پوائنٹس کی بنیاد پر سخت سزائیں متعارف کروائی گئی ہیں۔
اور یہ سب ان حکومتی بیانات سے مماثلت رکھتا ہے جن میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ سنکیانگ کے ہر سکول میں صرف چینی زبان میں تعلیم دی جاتی ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سنکیانگ کے محکمہ پروپیگینڈا کے ایک سینیئر افسر ژو گوئی ژیانگ نے اس بات کی تردید کی کہ چینی حکومت نے خود سے بڑی تعداد میں ایسے بچوں کی دیکھ بھال کا بیڑا اٹھایا ہے جنھیں اپنے گھر چھوڑنے پڑے ہیں۔

‘اگر کسی گھرانے کے تمام افراد کو پیشہ ورانہ مہارت حاصل کرنے لیے بھیجا گیا ہے تو یقیناً اس گھرانے کو شدید مسائل کا سامنا ہو گا۔‘
انھوں نے ہنستے ہو ئے کہا کہ ’اس قسم کی کوئی مثال نہیں میری نظر سے نہیں گزری۔‘
لیکن زینز کی تحقیق کا سب سے اہم حصہ وہ ثبوت ہیں جو یہ بتاتے ہیں کہ قید میں موجود لوگوں کے بچوں کی بڑی تعداد کو واقعی بورڈنگ سکول سسٹم میں داخل کیا جا رہا ہے۔
مقامی حکام تفصیلی فارمز کا استعمال کرتے ہوئے ان بچوں کی تفصیلات درج کرتے ہیں جن کے والدین یا تو پیشہ ورانہ مہارت حاصل کر رہے ہیں یا جیلوں میں بند ہیں اور وہ اس بات کا اندازہ بھی لگا رہے ہیں کہ آیا ان بچوں کو انفرادی یا مرکزی طور پر دیکھ بھال کی ضرورت ہے۔

زینز کے ہاتھ ایک ایسا حکومتی دستاویز لگی جس میں ‘ضرورت مند گروہوں’ کو مختلف سبسڈیز فراہم کیے جانے کے حوالے سے معلومات درج ہیں۔ اس میں ان گھرانوں کا بھی ذکر ہے جن کے ‘دونوں میاں بیوی پیشہ وارانہ مہارت’ حاصل کر رہے ہیں۔

کاشغر کے تعلیمی بیوروز کو ہدایت نامہ جاری کیا گیا ہے کہ وہ خاص طور پر ان طالب علموں کی ضرورتوں کا خیال رکھیں جن کے والدین کیمپس میں موجود ہیں۔

ہدایت نامے کے مطابق سکولوں کو ‘نفسیاتی کاؤنسلنگ کو بہتر بنانے’ کی تنبیہ کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ ‘طالب علموں کی تعلیمی سوچ’ کو سنوارنے کی ضرورت ہے۔
اس جملے کی گونج ان کیمپس میں بھی سنائی دیتی ہے جن میں ان بچوں کے والدین موجود ہیں۔ یہ واضح ہے کہ بچوں کی ان بورڈنگ سکولوں میں داخلے کو ایک معاشرتی مسئلے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے اور اس حوالے سے کام بھی کیا جا رہا ہے لیکن حکام اس کی تشہیر کرنے سے گریزاں ہیں۔
کچھ متعلقہ حکومتی دستاویزات میں ‘پیشہ وارانہ مہارت حاصل کرنے کی ٹریننگ’ کے فقرے کی جگہ غیر واضح الفاظ کا استعمال کر کے انھیں ‘سرچ انجنز’ سے بظاہر جان بوجھ کر چھپایا گیا ہے۔

کچھ مواقع پر بڑی عمر کے افراد کے قید خانوں کے قریب بچوں کے سکول یعنی کنڈر گارڈن سکول بھی بنائے گئے ہیں جن کے گن چینی سرکاری میڈیا گاتا ہے۔

ان کے مطابق ان بورڈنگ سکولوں کے ذریعے اقلیتی بچوں کو زندگی میں ‘بہتر عادات’ سکھائی جاتی ہیں اور حفظانِ صحت سے متعلق گھر سے بہتر معلومات فراہم کی جاتی ہیں جبکہ کچھ بچوں نے اپنی استانیوں کو ‘ممی’ کہنا شروع کر دیا ہے۔

ہم نے متعدد مقامی تعلیمی بیوروز کو سنکیانگ میں یہ جاننے کے لیے ٹیلی فون کیا کہ اس حوالے سے سرکاری پالیسی کیا ہے۔ اکثر نے جواب دینے سے انکار کیے لیکن کچھ بیوروز نے ہمیں موجودہ نظام کے بارے میں مختصر حقائق بتائے۔

ہم نے ایک خاتون سرکاری افسر سے پوچھا کہ ان بچوں کا پرسانِ حال کیا ہے جن کے والدین کو کیمپس منتقل کر دیا جاتا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ ‘وہ بورڈنگ سکولوں میں داخل ہیں۔ ہم انھیں رہائش، کھانا اور کپڑے فراہم کرتے ہیں۔۔۔اور ہمیں حکومتی اداروں کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ ہم ان کی اچھی دیکھ بھال کریں۔

استنبول کے ہال میں جیسے جیسے بکھرے ہوئے گھرانوں کی کہانیاں سامنے آ رہی تھیں ویسے ہی ناامیدی اور شدید نفرت بھی دیکھنے میں آئی۔

وہاں موجود ایک ماں نے بتایا کہ ‘ہزاروں بچوں کو ان کے والدین سے الگ کیا جا رہا ہے اور ہم اس حوالے سے مسلسل گواہیاں بھی دے رہے ہیں۔’
ان کا سوال تھا کہ ‘دنیا یہ سب جاننے کے باوجود بھی خاموش کیوں ہے؟’
سنکیانگ میں کی جانے والی تحقیق کے مطابق تمام بچے اب ایسے سکولوں میں تعلیم حاصل کریں گے جن کا ’انتظام انتہائی الگ تھلگ انداز میں چلایا جاتا ہے۔

بہت سے سکولوں میں بھرپور جاسوسی کا نظام موجود ہے، سکولوں کے احاطے میں الارمز اور 10 ہزار کلو وولٹ بجلی گزارنے والی باڑیں موجود ہیں۔ یہاں تک کہ کچھ سکولوں کی سکیورٹی پر کیے جانے والا خرچ حراستی کیمپس سے بھی زیادہ ہے۔

اس پالیسی کو سنہ 2017 کے اوائل میں متعارف کروایا گیا تھا جب حراست میں لیے جانے والے افراد کی تعداد ڈرامائی طور پر بڑھ گئی تھی۔

زینز اب یہ سوچتے ہیں کہ کیا ریاست نے اس وقت یہ پالیسی اس لیے متعارف کروائی تھی تاکہ والدین اپنے بچوں کو جبری طور پر بازیاب نہ کروا سکیں۔

انھوں نے بتایا کہ ‘میرا خیال ہے کہ بچوں اور والدین کو منظم طور پر الگ رکھنے کا ثبوت اس بات کی واضح نشاندہی ہے کہ سنکیانگ کی حکومت چاہتی ہے کہ نئی نسل کو اپنی جڑوں، مذہبی عقائد اور زبان سے علیحدہ کیا جا سکے۔‘
’ثبوت اس بات کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ ہمیں اسےثقافت کی نسل کشی کہنا چاہیے۔’