ورلڈ بینک نے پاکستان کے ریونیو وصولی نظام کو ناکام قراردیتے ہوئے اپنی رپورٹ میں ایف بی آر کی اہلیت پر بھی سوالات اُٹھا دیئے ہیں۔
دو ہزار پندرہ تا دو ہزار اٹھارہ کے سرکاری اخراجات اور مالی حسابات کے بارے میں اپنی جائزہ رپورٹ میں ورلڈ بینک کا کہنا ہے کہ پاکستان کی ٹیکس مشینری اس قابل ہی نہیں کہ ٹیکس چوروں اور فراڈ کے مرتکب افرادکے خلاف کامیابی سے قانونی کارروائی کرسکے ۔ٹیکس کی وصولی اوراس رقم کو بروقت خزانے میں جمع کرانے کے معاملات میں بھی تفاوت سامنے آیا ہے۔
رپورٹ میں ایف بی آر کوریونیو آڈٹ اور انویسٹی گیشن میں بری کارکردگی اور دو ہزار اٹھارہ میں 300 ارب روپے کے بقایا جات کی وصولی کے معاملے پر گریڈ ’’ڈی‘‘ جبکہ ناقص ریونیورسک مینجمنٹ سسٹم اور ٹیکس دہندگان کے حقوق کے معاملے میں گریڈ ’’سی‘‘ دیا گیا ہے۔ورلڈ بینک کی رپورٹ کا فائنل ڈرافٹ وزارت خزانہ کے جون میں شیئرکیا جاچکا ہے۔
ورلڈ بینک نے بعض ایسے کیس پکڑے ہیں جن میں ایف بی آر کی طرف سے وصول کیا گیا ٹیکس بروقت خزانے میں جمع نہیں کرایا گیا۔ایک ماہ میں کی گئی وصولیاں اگلے ماہ خزانے میں جمع کرائی گئی ہیں۔اگر ایک ماہ کا ٹیکس ٹارگٹ(کسٹم ڈیوٹی کی صورت میں ) پہلے پورا ہوجاتا ہے تو پھر باقی وصول ہونے والی رقم کو اگلے ماہ میں ڈال دیا جاتا ہے۔ورلڈ بینک نے اس مسئلے پر قابو پانے کیلئے ایف بی آر، سٹیٹ بینک آف پاکستان ،نیشنل بینک اور اے جی پی آر کے مابین آن لائن سسٹم کی تجویز دی ہے۔
رپورٹ کے مطابق ٹیکس اسیسمنٹ ،کلیکشن ،بقایاجات اور انہیں خزانے میں جمع کرانے کے معاملے میں حسابات کے مکمل نمٹانے کی کوئی ایک بھی مثال نہیں ملی۔کلیکشن کی نان رپورٹنگ یا ری فنڈزکی تاخیرکے معاملات کو چیک نہیں کیا جاتاکیونکہ اس کی کوئی معلومات ہی نہیں ہوتیں یا اس کیلئے علیحد ہ سسٹم استعمال کیا جاتا ہے،ان کا آپس میں کوئی ربط نہیں ہوتا۔فنانس ڈویژن کی حد تک ریونیواور اخراجات کے دونوں سسٹم آپس میں جڑے ہوئے نہیں ہیں۔
پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے ایف بی آر میں اصلاحات کا اعلان کیا تھا لیکن تاحال نظام میں ایسی کوئی تبدیلیاں متعارف نہیں کروائی گیئںجن سے اس میں پائی جانے والی کمزوریوں پر قابو پایا جاسکے ۔وزیراعظم نے 570 ارب ڈالر کے تاریخی شارٹ فال کے باجود ابھی تک اس بارے میں کسی سے جواب طلبی نہیں کی۔