ن لیگ، پیپلز پارٹی، جے یو آئی اور بلوچستان – منظور بلوچ

818

ن لیگ، پیپلز پارٹی، جے یو آئی اور بلوچستان

تحریر: منظور بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

کہانی کا ایک حصہ وہاں سے شروع ہوتا ہے، جب یہ تحریری طور پر طے ہوا کہ” جمہوریت کی ترقی و پاکستان میں حکومت کی بقا ( مضبوط حکومت) اور اس سے بھی بڑھ کر انصاف کی بنیاد و ملکی سالمیت کے واسطے حکومت بلوچستان، کمبائینڈ اپوزیشن پارٹیز کے ساتھ معاہدہ کرتی ہے۔

اس معاہدے کی بنیاد پاکستان کی وفاقی اکائیوں کے لیئے با مقصد صوبائی خود مختاری کا حصول، تاکہ معاشرتی، معاشی انصاف تمام پاکستانی لوگوں کے لیئے یقینی بنایا جائے، اور ایسا طریقہ کار اختیار کیا جائے، کہ وفاقی حکومت صوبوں کی مدد کرے نہ کہ ان کو زیر تسلط رکھے۔۔۔۔۔”

یہ وہ مقاصد تھے، جن کے لیئے شہید نواب اکبر خان بگٹی کی جماعت بلوچستان نیشنل الائنس نے نواز شریف کی سربراہی میں آئی جے آئی کے ساتھ ایک تحریری معاہدہ کیا۔

معاہدے کے مطابق آئی جے آئی نے بی این اے کے ساتھ مل کر اقرار کیا کہ ” ہم درج ذیل اس معاہدہ کے زیر دستخطی آپس میں اقرار کرتے ہیں کہ ہم زیادہ سے زیادہ صوبائی خود مختاری کے لیئے آئینی ترامیم کے واسطے کام کرینگے،اور تعاون کرینگے، باہمی طور پر طے شدہ آئینی ترمیمات کے لیئے پارلیمنٹ کے توسط سے آگے بڑھیں گے۔۔۔”

اس ضمن میں جو شرائط تھیں، ان میں چیدہ چیدہ نکات میں شامل تھا، کہ صوبہ بلوچستان کے معاملات میں وفاق کی جانب سے کسی قسم کی کوئی مداخلت نہیں کی جائے گی، مشترکہ فہرست کے تمام معاملات حکومت بلوچستان کی مشاورت سے طے کیئے جائیں گے، فرنٹئیر کور براہ راست حکومت بلوچستان کی زیر نگرانی کام کرے گی، انسپکٹر جنرل ایف سی کی تقرری وزیر اعلیٰ حکومت بلوچستان کریں گے، دیگر نکات کے علاوہ سوئی گیس کا ترقیاتی سرچارج بلوچستان کو دیا جائے گا، این ایف سی کے لیئے قواعد و ضوابط بنائے جائیں گے، قدرتی گیس کی ایکسائز ڈیوٹی بڑھائی جائے گی، قومی شاہراہوں کے لیئے حسب ضرورت بلوچستان حکومت کو فنڈز فراہم کیئے جائیں گے، تمام وفاقی محکموں جنکی تعداد 42 ہے، اور تمام کارپوریشن، خود مختار، نیم خود مختار اداروں جنکی تعداد 73 ہے، میں بلوچستان کو اسکا مکمل کوٹہ وزیر اعلیٰ کے مشورے پر دیا جائے گا، بڑی اسامیوں کی تقرری وزیر اعلیٰ بلوچستان کے مشورے سے کیا جائےگا، صدر دفتر آئل گیس ترقیاتی کارپوریشن بلوچستان منتقل کیا جائے گا، تمام بڑے پراجیکٹس کے حوالے سے بلوچستان حکومت سے مشاورت لازمی ہوگی، اس کے علاوہ اور بھی بہت سے نکات اس تحریری معاہدے میں شامل تھے، اس تحریری معاہدے پر 30 اکتوبر 1989 کو اسلام آباد میں دستخط کیےگئے، آئی جے آئی کی جانب سے دستخط کرنے والوں میں متحدہ حزب اختلاف کے لیڈر غلام مصطفے جتوئی، پارلیمانی لیڈر آئی جے آئی چوہدری شجاعت حسین کے علاوہ وزیر اعلیٰ بلوچستان شہید نواب اکبر خان بگٹی، پارلیمانی لیڈر بلوچستان نیشنل الا ئنس کے ایم این اے منظور گچکی جبکہ گواہان میں سیدہ عابدہ حسین، ایم این اے، آزاد اور عارف جان محمد حسنی ، ایم این اے، بلوچستان نیشنل الائنس شامل تھے۔

لیکن آج تک اس تحریری معاہدہ پر عملدرآمد نہیں ہوسکا، تحریری معاہدہ تو اپنی جگہ 1990 میں شہید نواب بگٹی کی جماعت جے ڈبلیو پی اکثریتی جماعت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی، نوازشریف نے اتحادی ہونے کے ناطے بلوچستان حکومت کی تشکیل میں نواب بگٹی کا ساتھ دینے کی بجائے ان کے ساتھ دھوکہ کیا، اور انکی جگہ مسلم لیگ کے تاج جمالی کو وزیر اعلیٰ بنایا گیا، اور اسی دور میں نواب بگٹی کے جواں صاحب زادے سلال بگٹی کو دن کی روشنی میں جناح روڈ پر قتل کیا گیا، کیا اہل بلوچستان، بالخصوص ن لیگ کی بلوچستان سے تعلق رکھنے والی جماعتیں ن لیگ پر اعتماد کر سکتی ہیں، جو اپنے تحریری معاہدوں سے بھی منحرف ہوتی ہے۔

اسی نوازشریف نے 1997 میں اختر مینگل کی حکومت کو تحلیل کرنے کے لیئے انکی پارٹی کو بھی تقسیم کیا، اور شرمناک بات یہ ہے کہ بی این پی کی تقسیم پر صرف دس کروڑ خرچ کیئے گئے۔

پیپلز پارٹی نے کھل کر شہید نواب بگٹی کے مخالفین کو سپورٹ کیا، 1988 میں بی این اے کی حکومت کی تشکیل کے خوف سے پی پی نے بلوچستان اسمبلی کو ہی تحلیل کردیا۔

زوالفقار علی بھٹو کی گرفتاری اور پھانسی کے بعد ایم آر ڈی کو میر غوث بخش بزنجو کی پاکستان نیشنل پارٹی نے اس شرط پر سپورٹ کیا کہ پی پی اقتدار میں آنے کی صورت میں صوبائی خود مختاری دے گی، لیکن پی پی نے کبھی بھی اس پر عمل درآمد نہیں کیا۔

بلوچستان میں پی پی حکومت نے اپنے گورنر عمران اللہ خان کے ذریعے کھل کر شہید نواب اکبر خان بگٹی کے کلپر مخالفین کو سپورٹ کیا، اور بیت المال سے ان میں رقوم تقسیم کیں۔ 2008 کی پی پی حکومت میں بلوچوں کے مسخ شدہ لاشوں کے ملنے کا سلسلہ شروع ہوا۔

1990 میں نواز شریف نے حکومت سازی کے لیئے نواب بگٹی سے دھوکہ کیا، بعد ازاں بلوچستان کے ایک دورے کے موقع پر چوہدری شجاعت حسین نے کوئٹہ کے اخبار نویسوں کے ساتھ آف دی ریکارڈ گفتگو میں، نواز شریف کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کیا کرتے، نواز شریف کے فیصلے سے قبل آئی ایس آئی، جے یو آئی کو توڑ چکی تھی۔

یہی جے یو آئی، آج سیاست میں اصولوں کا استعارہ بنی ہوئی ہے، جب نواب بگٹی کے خلاف پرویز مشرف نے آپریشن کا آغاز کیا تو جے یو آئی، جام یوسف حکومت کا حصہ تھی، اور جب نواب بگٹی کے خلاف پورا بلوچستان جل رہا تھا، تو مشرف نے اپنے قریبی دوست مولانا محمد خان شیرانی کے ذریعے بلوچستان کو توڑے جانے سے بچائے رکھا اور شیرانی سے کہا گیا کہ ابھی تو آپریشن کو کوہلو کاہان تک توسیع دینی ہے، اور یہی وہ دن تھے، جب مولانا فضل الرحمان نے بڑی نخوت اور متکبرانہ بیان دیا کہ ہم کسی سردار کی”ہلاکت” پر حکومت سے استعفیٰ نہیں دے سکتے۔ بلوچ انکا یہ بیان کبھی بھول نہیں سکتے، لیکن آج یہی جماعت، جن پر کرپشن، لوٹ مار کے الزامات ہیں، نہ صرف چئیرمین سینٹ کو تبدیل کرنے بلکہ پارلیمنٹ سے اجتماعی استعفوں کی بات کر رہی ہے؟

مجھے نہ تو چئیرمین سینٹ سے کوئی ہمدردی ہے، نہ پارلمینٹ کے اجتماعی استعفوں سے تعلق ہے؟ کہنا صرف یہ ہے کہ جب ان جماعتوں پر برے دن آتے ہیں تو انکو بلوچستان اور انکے لوگ یاد آتے ہیں، یہ خود کو مظلوم ثابت کرکے اہل بلوچستان کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں، لیکن جب یہ اقتدار کی غلام گردشوں میں آتے ہیں، تو بلوچوں کے خون بہانے میں بھی معاون بنتے ہیں، زوالفقار علی بھٹو سے لیکر بینظیر بھٹو اور نواز شریف سے لیکر زرداری تک سب نے اپنے حصے کے زخم بلوچوں کو دیئے ہیں، بلوچستان میں انکا ساتھ دینے والوں کو انکی بد عہدیاں بھی یاد نہیں اور وہ آج بھی بلوچوں کے بہتے لہو، انسانی حقوق کی پامالی کو کوئی ایشو سرے سے سمجھتے ہی نہیں، ان کے لیئے لاپتہ افراد بھی کوئی بڑا مسئلہ نہیں، اگر مریم نواز کو واقعی بلوچوں سے رتی بھر ہمدردی ہوتی تو وہ بلوچستان آتے ہی کوئٹہ سے متصل دشت علاقے کا دورہ کرتیں جہاں مسخ شدہ اور گمنام بلوچوں کی لاشوں کا قبرستان ایک چھوٹا سا شہر بن چکا ہے، لیکن یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ پی پی، ن لیگ، اور جے یو آئ سمیت تمام سیاسی جما عتوں کے لیئے بلوچوں کی حیثیت کیڑے مکوڑوں کی ہو اور بھلا حشرات الارض اور کیڑے مکوڑوں کے بھی کوئی بنیادی انسانی حقوق ہوتے ہیں؟


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔

SHARE
Previous articleکوئٹہ: لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے احتجاج جاری
Next articleحقیقی قومی قوت و آزادی – برزکوہی
منظور بلوچ
بلوچستان کے ضلع قلات کے علاقے بینچہ سے تعلق رکھنے والے پروفیسر ڈاکٹر منظور بلوچ اس وقت بلوچستان یونیوسٹی میں براہوئی ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین ہیں۔ آپ نے براہوئی زبان میں ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے، اسکے علاوہ آپ ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز اور ایل ایل بی بھی کرچکے ہیں۔ آپکے براہوئی زبان میں شاعری کے تین کتابیں، براہوئی زبان پڑھنے والے طلباء کیلئے تین کتابیں اور براہوئی زبان پر ایک تنقیدی کتابچہ شائع ہوچکا ہے۔ منظور بلوچ بطور اسکرپٹ رائٹر، میزبان اور پروڈیوسر ریڈیو اور ٹی وی سے منسلک رہ چکے ہیں۔ آپ ایک کالم نویس بھی ہیں۔ آپ بطور صحافی روزنامہ مشرق، روزنامہ رہبر، روزنامہ انتخاب، روزنامہ آزادی، روزنامہ آساپ، روزنامہ ایکسپریس نیوز میں بھی کام کرچکے ہیں اور آپ ہفتہ وار سالار کوئٹہ کے ایڈیٹر بھی ہیں۔ آپ دی بلوچستان پوسٹ میں بلوچستان کے سیاسی اور سماجی حالات پر باقاعدگی سے کالم لکھتے ہیں۔