مکالمہ – گورگین بلوچ

230

مکالمہ

تحریر: گورگین بلوچ (صوبائی صدر بی ایس او)

دی بلوچستان پوسٹ

اس بار سمندر کے قریب بیٹهے میاں صاحب اور بلوچی بهائی محو گفتگو تهے، معمول کی طرح میں چپ چاپ سمندر کے کنارے میاں صاحب کی بغل میں بیٹه گیا، سمندر کی پرطلاطم لہروں کو آہستہ آہستہ ساحل پہ ضم ہوتے دیکھ رہا تهاـــــ

میں سمندر کی رواں لہروں میں اتنا کهویا ہوا تها کہ مجهے میاں طفیل کی گرجدار گفتگو سنائی ہی نہیں دے رہی تهی لیکن اچانک بلوچی بهائی کی حقے کی کش نے جگا دیا۔ دھیمی دھیمی آواز میں اقراری لہجے میں میں بولا ہاں میاں صاحب آپ صحیح بول رہے ہیں، تاریخ کسی کو معاف نہیں کرتی، تاریخ نے لوگوں کو زیرو سے ہیرو بنایا ہے اور ہیرو سے زیرو ……….

بلوچی بهائی آپ کو 1998 یاد هوگا میاں نواز شریف نے سردار اختر مینگل کی حکومت کے دوران راسکوہ میں ایٹمی دھماکہ کراویا تھا اور بعد میں اختر مینگل کو وزرات اعلیٰ سے ہاتھ دھونا پڑا؟

جی میاں ــــــــــ بلوچی بهائی نے لمبی جمائی لینے کے بعد تهوڑی خاموشی کے بعد بولا، وه دور اچهی طرح یاد ہے، راسکوہ کی خوبصورتی کیسے زیر زمین مدفون ہوا۔

میاں چلو کل اور آج کی صورتحال پر نظر دوڑاتے ہیں، ثناء اللّٰہ زہری یاد ہے؟ وزیر اعلیٰ عدم اعتماد سے بچنے کی خاطر اخلاقاً مستعفی ہونے کا اعلان کرتا ہے، آیا یہ واقعہ 2018 کی الیکشن کی خاطر، کسی اور طاقت کے لیئے راه ہموار نہیں کر رها تھا اور باپ پارٹی کی تخلیق اسی وقت نہیں ہوئی؟

میاں: بلوچی بهائی دیکهیں میں یہ نہیں کہہ سکتا یہ کون کر رها هے، کیوں کر رها ہے؟ کس کے لیے کر رها هے؟ بہرحال آپ کے بلوچستان کے سیاسی پارٹیاں بہت کمزور دکهتے نظر آرہے هیں، بلوچی بهائی آپ کے علم میں هے آپ کی گاؤں کے گهروں کی تعداد 2 سے تین سو هے اور یہاں آپ کے گاؤں میں ایک گهر کے تین بهائی مختلف سیاسی، مذهبی پارٹیوں کے ٹکٹ سے الیکشن لڑ رہے ہیں، بیچارے ماں باپ پریشان هیں کونسے بیٹے کو ووٹ دوں۔ بلوچ بهائی اپنی کمزوری پہ کبهی نظریں دوڑاؤ۔

بلوچی بهائی سمندر میں دور سے نمودار هونے والی کشتی کو باریک بینی سے دیکهنے لگا تهوڑی خاموشی کے بعد بول اٹها بحث سے ہٹ کر، میاں صاحب اصل میں ہم ناراض نہیں، ہمیں بهولا گیا ہے، آپ نے دیکها نہیں راتوں رات عوام بے خبر نئی پارٹیوں کی تشکیل ہوئی، برسر اقتدار لایا گیا۔ نوازشریف اس دور میں
خود کی طرح اپنے وزیر اعلی کو بهی بچا نا سکا؟

میاں:بلوچی بهائی آپ هر وقت مرکز سے گلہ شکوه کرتے نظر آتے هو، بلوچی بهائی آپ آجکل دیکھ نہیں رہے کیا عمران خان کا پورا دھیان بلوچستان پر ہے، کتنے بندے بازیاب ہوئے اور اختر مینگل کو اربوں روپے دیئے گئے کیا آپ ان سے ناواقف ہو۔

ارے میاں بس کر پانچ بازیاب ہوئے ہیں 10 اور لاپتہ ہوئے ہیں، اختر مینگل نے کس کے لیئے اربوں کے پیسے لیئے، یہ ہمیں بتائے بلوچی بهائی نے تلخ لہجے میں کہا۔

ارے بلوچی بهائی معاف کر روز بلوچی بهائی بول بول کر زبان پہ بلوچ کی جگہ بلوچی آئی هوئی هے، بتائیں نئی حکومت کیسی ہے؟ میاں نے عینک کو آگے پیچهے کرکے سوال ٹال دیا۔

میاں صاحب بلوچ پیر جانے، جام جانے، نئی حکومت کیسی ہے بہرحال اب مجھے بحر بلوچ میں اترنے کی اجازت نہیں آپ خود اندازہ لگائیں، بلوچی بهائی پہلے کی نسبت بلوچستان کی حالات ٹهیک ہیں؟

بلوچی بهائی نے بیڑی نما سگریٹ کے کش لگا کر زور دار قہقے مارنے کے بعد، میاں کونسے حالات کی بات کر رهے ستر سال میری عمر کو گذرے ہیں، یہی حالات پہلے تھے اب بھی جوں کے توں ہیں، میری آنکهیں بڑهاپے کی وجہ سے کمزور هیں عینک کا نمبر بهی پرانا هوا هے، میرا پوتا یہی بتا رها تها بڑے ابا جی آج پسنی سمیت بلوچستان کے مختلف جگہوں سے مسخ شدہ لاشیں ملی ہیں۔

میاں صاحب آپ کونسے دنیا میں جی رہے هیں، کیا آپ اخبار ٹی وی نہیں دیکهتے ــــــــــ
میاں نے سر کو ہلا کر کہا ارے بلوچی بهائی یقین کرو سی پیک نے اتنا مصروف رکها هے پتا نہیں چلتا کیا هو رها هے کون کر رها هےاور اسی وقت دور سے آنے والی کشتی ساحل پہ پہنچ گئی، میں دوڑا ناحداؤں کے پاس سمندری صورتحال پوچهنے گیا۔
میاں اور بلوچی بهائی حقہ، سگریٹ، سلیمانی چائے کے ساتھ مدہوش ہوئے محو گفتگو ہی رہے


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔