ملنا ہے غیروں سے تو صاف کہہ دو، یوں روٹھ کر جانے کا بہانہ نہیں اچھا – برزکوہی

1612

ملنا ہے غیروں سے تو صاف کہہ دو
یوں روٹھ کر جانے کا بہانہ نہیں اچھا

تحریر: برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

ویسے بھی ایک بات بہت مشہور ہے کہ وقتِ سکرات انسان کے حلق سے ایک آواز ضرور نکلتا ہے، اسی طرح زوال کی ایک نشانی یہی ہے کہ انسان کے حواس ساتھ دینا چھوڑ دیتے ہیں اور پھر صحیح و غلط کی تمیز چھوڑ کر اوٹ پٹانگ و بچگانہ حرکتیں شروع کردیتا ہے، موت و زوال میں دراصل خاص فرق نہیں ہوتا ہے، دونوں کا بنیادی فلسفہ ایک ہی ہے۔

ہمیں، خاص طور پر مجھے اپنے ذہن پر ماتم اور انتہائی شرمندگی و افسوس اور پشیمانی ہورہا کہ ہم بھی عقل سے پیدل ہوکر اس حد تک احمق، بے وقوف اور نالائق تھے کہ کبھی ان سے امید اور توقعات وابستہ رکھتے تھے کہ یہ ہمیں ایک منظم تحریک دلا کر غلامی کے آغوش سے نکال دینگے، مگر کھودا پہاڑ نکلا وہ بھی ذہنی طور پر مفلوج چوہا۔

کیا جیش العدل و جند اللہ ایران سے ہمدردی رکھتے ہیں؟ کیا یہ دونوں ایران کے پروکسیز ہیں؟ کیا انہوں نے دالبندین میں چینی انجنیئروں و کراچی میں چینی کونصلیٹ اور گوادر میں فائیو اسٹار حملے میں شریک تھے یا ملوث تھے؟ اگر نہیں پھر کس جواز کے تحت بابا امریکہ نے ان کو بھی دہشت گرد قرار دیا؟

یہ دونوں تنظیم تو امریکہ کے کٹر حریف ایران کے خلاف لڑرہے ہیں، اس حد تک تو بچے بچے کو معلوم ہے کہ ان کو سعودی عرب و پاکستان کی مکمل کمک و مدد حاصل ہے، بغض معاویہ کی حد تک امریکا کی بھی حمایت حاصل ہے۔

آپ نے بھی موقع سے فائدہ اٹھا کر ان کی کھلم کھلا حمایت شروع کرلی تھی، اس میں ہرگز ایران سے نفرت، مغربی بلوچستان کے بلوچوں سے ہمددری نہیں یا گریٹر بلوچستان کا تصور نہیں بلکہ امریکہ، پاکستان اور سعودی کو خوش رکھنا تھا، آخر کیوں؟

جب مخصوص ایجنڈے کے تحت 2010 کے بعد سے تحریک کو کمزور کرنے کی منصوبہ بندی آپ نےشروع کردی، تو اسکے بعد یہ خوشنما سلوگن بھی سامنے آیا، قطع نظر 2008 میں آپ خود ایران سے تعلق و رابطہ اور میل و ملاقات وغیرہ رکھتے تھے، وہ آج بھی ریکارڈ پر بطور ثبوت موجود ہیں، تو اس وقت ایران سے دشمنی، مغربی بلوچستان کے بلوچوں سے ہمدردی اور ویثرنری سوچ نہیں تھا کیا؟ یا اس وقت تک علم نہیں تھا کہ بلوچستان کا ایک ٹکڑا ایران کے زیر تسلط بھی ہے؟ یا یہ شعور و آگاہی دوسال بعد پیدا ہوا؟ یا پھر ایران کے ساتھ کچھ لینے دینے میں بات نہ بنی؟

اپنے مقصد، اپنے کام، خاص طور پر مخصوص ایجنڈے کے تحت قومی جنگ اور مسلح جہدوجہد سے مکمل دستبرداری کی خاطر ایران والا نعرہ بلند ہوا، ایک تو پاکستان اور اس کے پروکسیز کو خوش کرنے کیلئے اور دوسرا کچھ وقت کے لیئے کچھ بلوچوں کو اپنے جھوٹے الزامات و پروپگینڈوں سے کنفیوز رکھو، تاکہ وہ تمہارے بتدریج خاموش دستبرداری اور تحریک کو ڈی ٹریک کرنے کے عمل کو نا دیکھ سکیں۔

جب ایک بندہ گاوں کا ایک دوکان نہیں چلا سکتا اور کہہ دے میں شہر میں مارکیٹ چلاوں گا کیا مضحکہ خیزی نہیں ہے، نوے کی دہائی میں جب مری بلوچ ہلمند سے واپس ہوئے، اس وقت ان کی تعداد 40 ہزار کے لگ بھگ تھی، پھر ان کے ساتھ باقی بلوچ بھی آزادی کی جنگ میں شامل ہوتے گئے، تو آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ کتنی تعداد میں بلوچ آزادی پسند تھے اور آج آپ کے پاس کتنے اور کیسے لوگ ہیں؟ مجھے بتانے کی ضرورت نہیں ہے، اس حقیقت سے بچہ بچہ واقف ہے، گوکہ یہ سب اس وقت بھی تیار تھے، ان سب کو تمہارے حوالہ کیا گیا تھا، پوری ایک فوج، مڈی، ایک ساخت، تجربہ کار ساتھیوں کا ساتھ سب تمہارے حوالے کیا گیا کہ جاو انہیں آگے لیجاؤ، اور آج تمہارے پاس ان سب میں سے کیا بچا ہوا ہے؟ اپنے سازشوں، نالائقی و نا اہلی سے سب کچھ کھو کر اب چار لونڈوں کے ساتھ بیٹھ کربس الزامات دھر کر اپنی ناکامیاں چھپا رہے ہو۔ اپنے ہر ناکامی کے بعد کہتے ہو میرے خلاف سازش ہوا۔ جب تم ایک تیار و دستیاب شدہ تحریک و جنگ اور لوگوں کو سنبھالنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، پھر مغربی بلوچستان کے بلوچوں کو جاکر ذہنی و جسمانی تربیت دیکر، منظم کرنا، تحریک کی شکل دیکر ایران کے خلاف لڑانا، کیا سراسر مضحکہ خیزی نہیں؟ کہیں یہ کچھ لوگوں کو بے وقوف بنانے کی کوشش نہیں ہے؟

میں پھر اپنی دیرینہ رائے کو دہراتا ہوں کہ مخصوص ایجنڈے کے تحت قومی آزادی کی مسلح جہدوجہد کو دانستہ اور سوچ و سمجھ کر میڈیا خاص کر سوشل میڈیا میں تنقید و تحقیق، اصلاح و تبدیلی کے خوبصورت پردوں کے پیچھے انتشار پیدا کیا گیا، دشمن کے بیانیئے کو آگے بڑھانا، الزام تراشی، منفی پروپگنڈہ کے ذریعے دشمن کو فائدہ اور بلوچ قوم خاص طور پر نوجوانوں میں مایوسی پھیلایا گیا، انہیں قومی جنگ سے دور رکھنے، دوسری طرف کرپشن، چوری، احتساب و مڈی کے نام پر مری بلوچوں میں آپسی جنگ شروع کرنا اور اب معطل معطل الزام تراشی دشمن کے خلاف حملوں سے لاتعلقی کے ساتھ ساتھ ان کو غلط قرار دینا اور شہداء تک کو نہیں بخشنا، خاص طور پر شہید اسلم جیسے عظیم انسان کو بھی ابھی تک غلط و مجرم ثابت کرنا، اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ آج تک شہداء کے خلاف ایسی غلیظ و گھٹیا باتیں اور حرکتیں کرنا، جو نام نہاد قوم پرست بی این پی اور نشینل پارٹی بھی نہیں کرتے، مگر یہ مخصوص ٹولہ، مخصوص ایجنڈے کے تحت شہداء تک کو بھی معاف نہیں کررہے ہیں۔ یہ صرف تحریک کے خلاف ایک بڑے سازش کا حصہ ہیں۔

پہلے اسی ٹولے نے بی ایل اے کا نام استعمال کرکے بلوچ قومی تحریک کو انڈیا کا پراکسی قرار دیا، اب دوبارہ یہ تنظیم کا نام استعمال کرکے اسے ایران کا پروکسی قرار دینے کی کوشش کررہا ہے۔ صرف اسی امر پر غور ہو کہ بلوچ قومی تحریک کو حقیقی قومی تحریک کے بجائے انڈیا و ایران کا پراکسی گرداننا کس ملک کا بیانیہ ہے اور اس ٹولے کے ان بیانات سے کون خوش ہوگا اور کسے جواز ملے گا تو بات کھل کر سامنے آجائے گا؟ کیا یہ پاکستانی بیانیئے کو تقویت نہیں پہنچا رہے؟

دو سال پہلے انہوں نے بھی شہید جنرل اسلم بلوچ کو بھارت کا پراکسی قرار دیکر معطل معطل کا ڈرامہ کھیلا تھا، جناب پراکسی اپنے اولادوں کو جھنڈوں و بارودوں میں لپیٹ کر قربان نہیں کرتے، وہ بچوں سمیت لندن کے بنگلوں میں رہتے ہیں۔ تاریخ الفاظ و الزام نہیں دیکھتی کردار دیکھتی ہے، تمہارے ہزاروں سازشوں و الزامات کے باوجود اسلم سرخرو ہوئے، اور اپنی حالت دیکھو کہ تمہارا لفظ لفظ بتا رہا ہے کہ تم کس کے مفادات بجا لارہے ہو۔

یہ معطل معطل والے قصے سارے ڈرامہ بازی اور مخصوص ایجنڈے کے حصے ہیں، صرف پاکستان اور چین کو خوش کرنے اور صفائی دینے اور وفاداری نبھانے کی خاطر کیئے جارہے ہیں، پھر شف شف کیوں شفتالو کہہ دو؟

چھوٹی سی مثال، جب کوئی ابھی تک تنظیم اور تنظیم امور سے واقف نہیں، وہ خاک عالمی سیاست کے پیچ و تاب سے واقف ہوگا، پانچ منٹ کے لیئے اگر کوئی حقیقی تنظیم کسی پر الزام لگاتا ہے، پھر پہلے اس کو تحریری طور پر شوکاز نوٹس جاری کرتا ہے، اگر شوکاز نوٹس کا جواب موصول نہ ہو یا مطمین کن نہ ہو تو تین ماہ کے لیئے وہ معطل ہوگا، اگر تین ماہ تک مطمین کن جواب و صفائی سامنے نہیں آیا، تو پھر بنیادی رکنیت آٹومیٹک ختم ہوجاتی ہے، دنیا میں یہ پہلی بار دیکھنے کو مل رہا ہے کہ ڈیڑھ سال تک معطل معطل پر گذارہ کیاگیا، اس کے بعد نام نہاد من گھڑت بیان رکنیت ختم کرنے کا، کیا لوگوں کو اپنے اوپر ہنسانے کے لیئے کافی نہیں یا مخصوص ایجنڈہ پر عمل درآمد نہیں ہے۔

کہتے ہیں جب گند کو ہاتھ لگاؤگے یا اس سے چھیڑ چھاڑ کروگے تو ہاتھ گندے ہوجائیں گے اور گندگی پھیل جائیگی تو میرا ایک بار پھر سب سے دست بندی ہے کہ سوشل میڈیا اور اپنے سرکلوں میں ایسی فضولیات، بحث و مباحثوں سے اپنے آپ کو مکمل دور رکھیں اور اپنے کام پر توجہ دیں بلکہ ان کو مکمل نظر انداز کردیں کیونکہ اب دنیا اور قوم کے سامنے سب کچھ واضح ہے۔ کسی کے سامنے وضاحت اور سمجھانے کی ضرورت نہیں ہے، جو مٹھی بھر لوگ ان کے ساتھ ہیں، وہ ساتھ تھے اور ساتھ رہینگے کیونکہ وہ خود مخصوص ایجنڈے کے ساتھ شعوری طور پر وابستہ ہیں، وہ نا ہی نا سمجھ ہیں، نا بے عقل ہیں، یہ ان کی اپنی سوچ، نیت اور خواہش ہے، جن کو سرانجام دے رہے ہیں۔ ان میں سادہ اور بے وقوف کوئی نہیں ہے، سب چھوٹے چھوٹے مفادات دیکھ کر وابستہ ہیں، اس اکیسویں صدی میں کوئی کسی کو نہ بے وقوف بنا سکتا ہے اور نہ استعمال کرسکتا ہے ہر ایک کی اپنی سوچ اور اپنا فیصلہ ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔