دی بلوچستان پوسٹ کتابی سسلسلہ قسط نمبر 3
مسلح جدوجہد، مصنف : کوامے نکرومہ
اجتماعی سامراج | جدید نوآبادیات
ترجمہ : مشتاق علی شان
اجتماعی سامراج
COLLECTIVE IMPERIALISM
سامراج نے جو نئی حکمت عملی استعمال کی اسے اس طرح واضح کیا جا سکتا ہے:
(الف) نوآبادیاتی ملک جو ایک ملک کی نوآبادیاتی ہوتا تھا وہ ختم ہو گیا اس کے بعد ایک سامراج کی جگہ مشترکہ سامراج کا طریقہ استعمال کیا گیا جس کی قیادت امریکا کر رہا ہے۔ یہ طریقہ دوسری عالمگیر جنگ کے بعد شروع ہوا اس وقت سوشلسٹ کیمپ نہایت محدود اور کمزور تھا اور وہ یورپ کے محنت کش طبقے کی تحریک کی کوئی فیصلہ کن مدد کرنے سے قاصر تھا۔جس کی وجہ سے وہاں کے محنت کش اپنے حقیقی مقصد سے ہٹ گئے۔
دوسری عالمگیر جنگ نے یورپ کے سیاسی و معاشی حیثیت ختم کر کے رکھ دی جس کے باعث سرمایہ دارانہ طریقہ یورپ تک محدود رہا۔جبکہ جنگ کا حقیقی فاتح امریکا کو قرار دیا گیا جس میں اتحادیوں نے اس کی مدد کی۔یہی وجہ تھی جس کے باعث امریکا نے اپنی حیثیت مستحکم کر لی اور یورپ کی گرتی ہوئی معیشت کو سہارا دیا۔
اسی ”بین الاقوامیت“یا ”سنڈیکلائزیشن“ نے امریکی سامراج کو اس امر کا موقع فراہم کیا کہ وہ ان حالات سے فائدہ اٹھا سکے۔
(الف) پیداوار بڑھانا THE NEED TO EXPAND
امریکا کے جو یورپی جنگی اتحادی تھے انھوں نے امریکا کو موقع فراہم کیا کہ وہ یورپی مارکیٹ سے مستفید ہو سکے۔جبکہ اس کے ساتھ ساتھ ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکا میں امریکا یورپی ممالک سے آگے تھا جہاں وہ نوآزاد ممالک میں جدید نوآبادیات قائم کر چکا تھا۔
(ب) فوجی صنعت بڑھانا THE NEED TO MILITARISE
امریکا کی فوجی صنعت اس سیاسی سوچ پر منحصر ہے کہ سوویت یونین اور چین سوشلسٹ ممالک کے طور پر طاقتور ہو رہے ہیں۔
اسی سوچ کے پیش نظر 1934سے1945تک امریکا کے اندر جو تضاد تھا اسے دبا کر1945 سے آج تک وہ اپنے عوام کو روس اور چین کا خوف دلا کر فوجی صنعتی پیداوار بڑھا رہا ہے۔ اس کے دومقاصد ہیں۔
(1) وہ جو استحصال کر رہا ہے اسے جاری رکھنا اور سامراجی بلاک میں جو ممالک ہیں انھیں اسلحہ فروخت کرنا۔
(2) اسی کے ذریعے یہ ممکن ہو جاتا ہے کہ دنیا کے غریب ومظلوم لوگوں کا استحصال جاری رکھا جاسکے۔
امریکا، برطانیہ،فرانس اور مغربی جرمنی وغیرہ افریقہ، لاطینی امریکا اور ایشیا کے علاقوں کے وسائل پر اجارہ داری کے ذریعے ان ممالک کی دولت کا مشترکہ منصوبہ بندی کے تحت استحصال کر رہے ہیں۔
IMF(بین الاقوامی مالیاتی فنڈ)میں امریکا کو 25%،بین الاقوامی تعمیر نو اور ترقی کے بینک(I.B.R.D)میں 34%اور بین الاقوامی ترقیاتی ایسوسی ایشن(I.D.A)میں 41% ووٹ ملے۔عام طور پر محددود پیمانے پر سارا یورپ بالخصوص مغربی جرمنی، افریقہ میں ایجنسیوں اور مختلف تنظیموں کے ذریعے استحصال کر رہا ہے جس میں یورپی معاشی برادری (E.E.C)اہم ہے۔
سامراج تو اقوامِ متحدہ کو بھی اپنے نوآبادیاتی مقاصد کے لیے استعمال کرتا ہے شمالی کوریا اور کانگو میں امریکی پالیسیاں اس کی بڑی مثالیں ہیں۔
کھوکھلی آزادی
SHAM INDEPENDENCE
سامراج رعایات اور اصلاحات کے ذریعے اپنا استحصال آزادانہ شکل میں جاری رکھتا ہے۔
ایسی ریاست کو جدید نوآبادی کہا جاسکتا ہے جو ظاہری طور پر آزاد ہو لیکن اس ریاست میں سیاسی طاقت رجعت پرست قوتوں کے پاس اور اقتصادی طاقت بین الاقوامی مالیاتی سرمائے کے پاس ہو۔
جدید نوآبادیات
NEO COLONIALISM
جدیدنوآبادیاتی نظام کو شکست دینے کے لیے سب سے پہلی اور بین الاقوامی حکمت عملی یہ واضح کیا جانا ہے کہ یہ ملک جدید نوآبادی کیسے بنا۔جدید نوآبادی جس میں حقیقی آزادی نہیں ہوتی بلکہ ظاہری طور پر اس کا تاثردیا جاتا ہے۔ایسے ملک کو سمجھنے کی ابتداء جدوجہد آزادی سے جدید نوآبادی بننے تک سے کی جائے کہ یہ ملک کیسے جدید نوآبادی میں تبدیل ہوا۔
جب آزادی کی تحریک مضبوط ہوتی ہے تو اسے آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے سامراج سخت گیر پالیسی اپناتا ہے۔اس مقصد کے حصول کے لیے وہ اپنے تمام تر ہتھیار،سارے جنگی مورچے اوراقتصادی حربے آزماتا ہے جن میں بدعنوانی، سبوتاژ،بلیک میلنگ اور نفسیاتی طور پر لوگوں کو مایوس کرنے کے لیے سامراج کا اپنے
فوائداورقومی تحریک کے خلاف پروپیگنڈا کرنا شامل ہے۔
(1) جیسے یہ پروپیگنڈا کہ مغربی جمہوریت اور پارلیمانی طریقہ ہی حکومت کرنے کابہترین ذریعہ ہے۔ ملکی آئین اس طرح تشکیل دیا جاتا ہے کہ اس میں اس کے چند خیر خواہ اور شامل باجے ہی شامل ہو سکیں۔
(2) یہ پروپیگنڈا کہ سرمایہ داری کے ذریعے ترقی کی جا سکتی ہے جس میں کھلا مسابقہ ہے جس کا تجربہ مغربی یورپ کے ممالک نے آزادسرمائے کی تکنیک کے ذریعے کیا ہے۔
ایسی صورت میں ملک کی حیثیت ایک بیچ کی ریاست کی سی ہوتی ہے جس میں فائدہ صرف دوفریقوں کو ہوتا ہے،ایک جدید نوآبادیاتی طاقت کو جس کے ہاتھ میں سیاسی اور معاشی طاقت ہوتی ہے۔جبکہ دوسرا فائدہ سامراج کو ہوتا ہے جو ہروقت جدید نوآبادی کو ”امداد‘‘ فراہم کرنے کے لیے تیار رہتا ہے۔
(3) یہ پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ تحریکِ آزادی کے راہنما ملک کو ”کمیونزم“ اور ”مکمل آمریت“ کی طرف دھکیل رہے ہیں۔
(4)سامرا ج اپنی حاکمیت کے دوران ملک کو مصنوعی طور پر تقسیم کر کے اسے ”آزادی“ کا نام دیتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ اس کے(یعنی مصنوعی ملک کے) آپس ہی میں تاریخی اور ثقافتی رشتے وتعلق ہے۔وہ انھیں ”قوم“ قرار دیتا ہے لیکن نہ تو ان کا ثقافتی تعلق ورشتہ ہوتا ہے اور نہ ہی اقتصادی طور پر یہ خود مختار ہوتے ہیں۔
سامراج کی آخری چال یہ ہوتی ہے کہ وہ پروپیگنڈے کے ذریعے مذہب، ثقافت، نسل اورسیاسی نظریات کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتا ہے تاکہ مظلوم لوگوں میں تفرقہ پیدا ہو۔یا ان ملکی علاقوں کو بھی جدا کر کے پیش کیا جاتا ہے جو حقیقت میں تاریخی،ثقافتی اور اقتصادی طور پر جڑے ہوئے ہوتے ہیں۔
یہ سب کچھ اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ تحریکِ آزادی کے راہنما ؤں کو جارحانہ اور شاؤنسٹ بنیادوں پراستوار قوم پرستی کی طرف دھکیل دیا جائے۔یا تحریکِ آزادی کو اصلاحات کی راہ پر لانے کے بعد یہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ ملکی انتظامیہ میں ”اچھے لوگ ہوں جو سیاسی،اقتصادی اور انتظامی اصلاحات کر سکیں۔“
جدید نوآبادیات میں آخر کار نہایت ہی سو چ بچار کے بعد نام نہاد آزاد انتخابات کرائے جاتے ہیں جن میں مقامی ایجنٹ حاکموں کی پسند سے منتخب ہوتے ہیں جنھیں قومی آزادی کے چیمپئین کے طور پر لوگوں میں متعارف کرایا جاتا ہے۔ اس طرح ایک کٹھ پتلی حکومت تشکیل پاتی ہے۔سامراج کا اصل مقصد و منشا استحصال ہوتا ہے جو کٹھ پتلی ریاستوں میں جدید نوآبادی طریقوں کے تحت ہوتا ہے۔
اگر انتخابات کے ذریعے قائم کردہ کٹھ پتلی حکومت بھی نہ چل سکے تو پھر حاکم آزادی کی تحریک کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کی سازش کرتے ہیں۔دوسری صورت میں جدید نوآبادی میں سامراج اپنے گماشتوں کے ذریعے نام نہاد ”ترقی پسند“ پارٹی تشکیل دیتا ہے جو آزادی کی غیر حقیقی اور جعلی تحریک چلاتی ہے۔جبکہ وہاں خفیہ ادارہ حقیقی تحریکِ آزادی کے تعاقب میں ہوتا ہے جسے مظلوم عوام کی حمایت حاصل ہوتی ہے۔جیسے گنی بساؤ میں (FLING)اور انگولا میں (UPA)نے گفت وشنید کے ذریعے خود مختاری حاصل کرنے اور کٹھ پتلی حکومت تشکیل دینے کے لیے کام کیا۔
جب تک تحریکِ آزادی کے راہنمااپنے خلاف سازش کو اچھی طرح نہیں سمجھیں گے اورحقیقی انقلابی نہیں پیدا کریں گے اس وقت تک نوآبادیاتی طاقت کے نظام کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔
صرف اسی صورت میں ہی حقیقی آزادی حاصل کی جاسکتی ہے اور قوم کی تشکیل نو کی جا سکتی ہے۔یہی وہ صورت ہے جس سے سامراج مخالف جدوجہد میں شامل لوگوں کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔
حقیقی آزادی حاصل کرنے کے بعد قائم ہونے والی حکومت ہی سامراج کی جدید نوآبادیاتی چال کا سدِ باب کر سکتی ہے۔سامراج ایسے حقیقی آزادشدہ ملک میں قائم حکومت کا تختہ الٹنے، راہنماؤں کو قتل کرنے، پارٹی کے اندر اختلافات پیدا کرنے،قبائلی فسادات،محلاتی سازشوں اور ایسی دیگر حرکتوں کے ذریعے اسے مستحکم ہونے سے روکتا ہے۔جبکہ اس کے ساتھ ساتھ سامراج پڑوسی کٹھ پتلی حکومت کو ہر لحاظ سے مضبوط کرتا رہتا ہے۔
اس لیے جدید نوآبادیا ت کو ختم کرنے کے لیے جو تحریک چلے اسے حقیقی معنوں میں بالغ النظر کیا جائے اورترقی پسند سیاسی جماعت کی قائم کردہ حکومت پر خصوصی توجہ دی جائے۔
یہ صرف ایک ایسی پارٹی کے تحت ہی ہوسکتا ہے جو سوشلز م کے لیے جدوجہد کرے۔اس پارٹی کے اندر متعدد گروپ ہو سکتے ہیں جن کے سیاسی معاشی مفادات مختلف ہوتے ہیں لیکن جو چیزانھیں ساتھ رکھتی ہے وہ پارٹی کی ریاستی مشنری ہوتی ہے۔جبکہ سامرا ج کی سازش ہوتی ہے کہ کسی ایسے گروپ کو اپنے ساتھ ملایا جائے جسکے سیاسی ومعاشی مفادات اس سے میل کھاتے ہوں،جب اس گٹھ جوڑ کی مخالفت کی جاتی ہے تو سامراج مندرجہ ذیل سازشیں کرتا ہے۔
(1) راہنما کا قتل، حکومت کا تختہ الٹنا یا محلاتی سازش کے ذریعے سیاسی طاقت اپنے کسی علاقائی نمائندے کے حوالے کرنا۔
(2)سیاسی قوت یکساں نہ ہونے کے باعث اگر ایک گروپ ریاستی مشینری کے اندر مضبوط ہوتا ہے تودوسرا گروپ پارٹی کے اداروں کے اندر مضبوط ہوتا ہے ایسی صورت میں سامراج جھوٹی اور مصنوعی افواہیں پھیلا کر دونوں گروپوں کے تضادات کو تیزکرتا ہے۔
یہ افواہیں زیادہ تر نظریاتی اختلافات،ملک کی معاشی بدحالی اور ریاستی انتظامیہ میں بدعنوانی سے متعلق ہوتی ہیں۔اس کی وجہ سے ایسا ماحول پیدا ہوجاتا ہے جس سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ ریاستی اداروں پر فائزافراد کو تبدیل کر دیا جائے۔ظاہری طور پر حکومت اسی پارٹی کی ہوتی ہے لیکن خصوصیات کے حوالے سے یہ حکومت نظریاتی طور پر سامراج کے قریب ہوتی ہے۔پارٹی کے اندر اس تبدیلی کے بعد سامراج کے پاس اس ملک کو جدید نوآبادی بنانے کے مواقع ہوتے ہیں۔
آزادی حاصل کرتے ہی ان سازشوں کو روکنے کے لیے سامراج کی یہ چال ذہن نشین ہونی چاہیے تاکہ ایسی صورتحال میں راست اقدامات کیے جاسکیں اور مستقبل کی ترقی کے لیے خاکہ ترتیب دیا جا سکے۔
جدید نوآبادی سامراجی قوتوں کی مدد سے ملک کو ”فلاحی ریاست“ بنانے کی مصنوعی کوشش کرتی ہے۔
فلاحی مملکت اندرونی حالت ہے اور جدید نوآبادیات بیرونی حالت ہے جو بین الاقوامی مالیاتی سرمائے کی قیادت میں جاری رہتی ہے۔
اس استحصال کا سارا دارومدار سامراج کے جدید نوآبادیاتی طریقے اور بین الاقوامی توازن پر ہوتا ہے جو اس کی حالت اور مستقبل کا تعین کرتا ہے۔
جدید نوآبادی کے اندر جو سرمایہ کاری کی جاتی ہے اس کے مقابلے میں زیادہ منافع حاصل کیا جاتا ہے۔اس کا اندازہ بڑے سرمایہ داروں کی کمائی گئی دولت کے اعداد و شمار سے لگایا جا سکتا ہے سرمایہ داروں اور دنیا کے غریب لوگوں کے درمیان اقتصادی طور پر خلیج روزبروز بڑھ رہی ہے۔
آخری نتیجہ یہ ہے کہ جدید نوآبادیات کا استحصالی طریقہ جو بیرونی حالت ہے وہ سرمایہ دار ریاست کو اسی حالت میں رکھتی ہے۔یہ استحصال کر کے وہ اس پیداوار پر انحصار کرتی ہے جو جدیدنوآبادی کے مزدور نہایت ہی غیر موزوں حالت میں بھی محنت کر کے جاری رکھتے ہیں۔وہ اتنا زیادہ پیدا کرتے ہیں جو وہ نوآبادی کی حالت میں بھی نہیں پیدا کرتے تھے۔یہ مزدور جدید نوآبادیات قائم کرنے والوں کی توقع سے بھی زائد پیدا کرتے ہیں۔جدید نوآبادی ہمیشہ اپنے عوام کے ساتھ ٹکراؤاور تصادم کی حالت میں ہوتی ہے اور حکومت اور عوام کے درمیان یہ دوری دن بد ن بڑھتی رہتی ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہے کہ حکومت کو عوام کی تائید و حمایت حاصل نہیں ہے۔یہ اقتدار محض جھوٹے بہانوں اور حیلوں کے ذریعے قائم رہتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ اس کا زیادہ تر انحصار بیرونی حکومتوں کی فوجی امداد پر ہوتا ہے جس کے ذریعے وہ اقتدار میں رہتی ہے۔
جدید نوآبادی کے ناگزیراجزاء یا لازمی حصے یہ ہیں
(1) معاشی استحصال (2)کٹھ پتلی حکومت (3) فوجی امداد (4) اقتصادی امداد
فوجی امداد مختلف ذرائع سے دی جاتی ہے مثال کے طور پر فوج کی فنی تربیت، جو کہ سامراجی ملک میں دی جاتی ہے۔یا پھر فوجی یونٹوں پر مغربی فوجی افسروں کا کنٹرول ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ خفیہ فوجی معاہدے کیے جاتے ہیں۔یہ جہاں بھی جس بھی حالت میں ہو اسے عوامی حکومت کے خلاف بنیادی جارحیت تسلیم کیا جائے۔یہ جدید نوآبادی ٹولے کو ظاہر کرتی ہے۔اس ”مدد‘‘کا براہِ راست اثر مظلوموں اور کٹھ پتلی حکومت کی خلیج پر پڑتا ہے جو ہرگزرتے دن کے ساتھ بڑھتی رہتی ہے۔یہ بھی محسوس کیا گیا ہے کہ امریکی پالیسی نے کینیڈی(امریکی صدر) کے قتل کے بعد اس”امداد“ کو ”پہلے سے دفاع“ کا نام دیا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔