صریح قصد – برزکوہی

386

صریح قصد

تحریر: برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

میرے پسندیدہ ترین کتاب “الکیمسٹ یا کیمیاگری” کے مصننف پاولوکوہیلو کہتے ہیں کہ “اکثر انسان مقصد کا ادراک حاصل کر لینے کے باوجود اس کے حصول کی جدوجہد نہیں کرتے ہیں، کیونکہ وہ ناکامی سے خوفزدہ ہوتے ہیں، مقصد کی صداقت پر غیر محکم یقین کا فقدان ہوتا ہے۔ ناکامی کا خوف اور اپنی صلاحیتوں اور اعتقاد کی کمی انسان کو مقصد کی کوشش سے دور رکھتی ہے۔”

اسی طرح نیلسن منڈیلا کے قریب “ہر کام، ہر عمل اس وقت تک نا ممکن لگتی ہے جب تک اس کو شروع نہ کیا جائے، جب شروع ہوگا تو تب ہی ممکن ہوگا۔”

چلو کتابوں کی حد تک، یہ کتابی باتیں پڑھنا آسان، سمجھنا آسان، لکھنا آسان، حتیٰ کہ کہنا بھی آسان مگر عملاً اور عملی زندگی میں لفظ بہ لفظ ان سے اپنی زندگی کو مزین کرنا، عمل اور مقصد کو خوبصورت و پرکشش الفاظ سے سنوارنا شاید ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوگا۔

جب میں خود نہیں چاہتا ہوں، مجھے شوق یالگن و دلچسپی نہیں ہے، تو پھر یہ بے لگنی، عدم دلچسپی اور عدم توجگی خود ہی اپنے کوکھ سے ہمیشہ بے عمل اور بے مقصد زندگی کو جنم دیتی ہے۔

زندگی کیا ہے؟ میری زندگی اور زندہ رہنے کا مقصد کیا ہے؟ اور خاص طور پر میرا اہم مقصد کیا ہے؟ یہ چند اور اہم بنیادی سوال ہیں جن سے غافل اور لاتعلق رہنے سے میں جانور نہیں، مگر انسان نما جانور ضرور بن جاتا ہوں۔ ہر انسان کا کوئی نہ کوئی مقصد ضرور ہوتا ہے، چھوٹا ہو یا بڑا، معمولی ہو یا غیر معمولی لیکن مقصد ضرور ہوتا ہے، بغیر مقصد کے انسان پھر انسانی روپ میں انسان نما جانور شمار ہوتا ہے اور پھر جانور کا کوئی مقصد نہیں ہوتا ہے۔

جس طرح پیاسے انسان کا مقصد پانی، بھوکے انسان کا مقصد روٹی، بے خواب انسان کا مقصد نیند ہوتا ہے، اسی طرح غلامی کے آغوش میں مقید انسان کا اہم مقصد غلامی سے نجات خالص آزادی ہوتا ہے۔ پھر اپنے مقصد کے لیئے جدوجہد کرنا یعنی آزادی کے حصول کے لیئے جدوجہد ہوتا ہے، واپس بات وہاں آکر رک جاتا ہے، جدوجہد کے لیئے بنیادی اور اہم شرط، مقصد پر محکم یقین اور جدوجہد میں لگن و دلچسپی اور مکمل توجہ جدوجہد اور مقصد کا بنیادی اصول ہوتا ہے اور ان خصوصیات سے انحراف یا ان میں کمی و کوتاہی کی شکل میں پھر اپنے جدوجہد کو اصولی جدوجہد سے تشبیہہ نہیں دیا جاسکتا ہے، پھر جدوجہد غیر اصولی جدوجہد یا ناکام جدوجہد کے زمرے میں شمار ہوتا ہے۔

بحیثیت بلوچ قوم ہم پوری دنیا میں ایک غلام قوم کے حیثیت سے پہچان رکھتے ہیں، اس سے بڑھ کر اور کچھ نہیں البتہ بلوچ سرزمین یا بلوچستان کی اہمیت و افادیت علاقائی اور بین الاقوامی قوتوں کی نظر میں ضرور اہمیت رکھتا ہے، مگر خود بلوچ قوم کی اس وقت کوئی قدر و اہمیت نہیں، جب تک بلوچ کی جدوجہد اس سطح اور اس مقام پر نہ ہو جہاں سے دنیا کو پورا پورا یقین ہو کہ اب بلوچ اپنی قومی آزادی کے علاوہ کسی بھی چیز دینے اور لینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ یہ سوچ یہ تاثر اور یہ تصور صرف اور صرف باتوں، یاداشتوں، خیالوں، تحریوں اور تقریوں سے دنیا کے کانوں پر نہ اثر انداز ہوا ہے اور ناہی ہوگا،
اس کے لیئے ایک طویل و صبر آزماء اور عوامی و قومی جنگ کی ضرورت ہوتی ہے، عوامی طاقت، عوامی حمایت، مستقل مزاجی اور بے شمار قربانیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔

مصائب، مشکلات، تکالیف، پریشانیوں، دربدریوں، وقتی ناکامیوں و شکست اور خاص طور پر دشمن کی بے رحم ردعمل کی خوف و گبھراہٹ کی وجہ سے اپنے ارادوں اور عزم میں تذبذب پیدا کرنا دشمن کی پوری فتح اور جدوجہد کی آخر کار شکست ثابت ہوگی۔

دنیا میں ناکام تحریکوں کی ایک طویل تاریخی فہرست آج بھی تاریخ کا حصہ ہے، جہاں خود قیادت اور جہدکار ایسے حالات و کیفیات کا شکار ہوکر ایک جاری جنگ کو ہاری جنگ کے دہانے پر پہنچا چکے ہیں۔

کبھی بھی حوصلوں، ارادوں اور قدموں میں تذذب پیدا نہیں ہوگا، جب دشمن کے خلاف ہر عمل سے پہلے اور بعد میں دشمن کی ہر سطح کے ردعمل کے لیئے ذہنی و فکری حوالے سے تیار رہا جائے کیونکہ دشمن کا ردعمل فطری ہوگا، اس کو ذہن سے نکال کر بے خبر ہونا اور دشمن کو بھول جانا خود قانون فطرت کے خلاف ہے۔

پھر خود جدوجہد بجائے خلوص، جذبہ، جوش و حوصلہ، پرعزم ارادوں کے بجائے باعث حیرانی، تکلیف، مایوسی اور الجھن ثابت ہوگی، پھر قیادت سے لیکر جہدکار خود سرگردانی کا شکار ہونگے۔ جب قیادت اور جہدکار خود سرگردانی اور الجھن کا شکار ہو پھر عوام کا اللہ ہی حافظ ہوگا، پھر عوامی حمایت اور عوامی طاقت حاصل کرنا مشکل نہیں ناممکن ہوگا۔

سب سے پہلے اپنے عمل اپنے مقصد اور شعوری طور پر اپنے سفر اور طرز جدوجہد پر سوفیصد محکم یقین و ایمان بلکہ عقیدے کی حدتک پہنچ کر اپنی ذمہ داریوں کو انتہائی لگن و دلچسپی اور توجہ کے ساتھ نبھانے بلکہ اوپر و نیچے رجحانات کی کیفیت سے مبرا ہوکر مستقل مزاجی سے آگے بڑھانا حقیقی جدوجہد اور حقیقی جہدکار کی بنیادی صفت ہوتا ہے اور کامیابی و کامرانی کا راز بھی اسی میں پوشیدہ ہوتا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔