شیرزال ماؤں کی سرزمین بلوچستان – بلوچ خان بلوچ

270

شیرزال ماؤں کی سرزمین بلوچستان

تحریر: بلوچ خان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

شام کا وقت تھا لوگوں کی ہر طرف سے آواز آرہی تھی، گاڑیوں، موٹر سائیکلوں کی شور و غُل کی آواز آ رہی تھی. ماں گھر کے اپنے چھوٹے چھوٹے کاموں میں مصرف تھی. بہنیں ایک ساتھ بیٹھ کر کام کے ساتھ ساتھ گپ شپ کر رہی تھیں اور چھوٹے چھوٹے بچے گھر کے آنگن میں تتلی کی مانند کھیل رہے تھے اور باقی گھر کے سب بھاتی کہیں نا کہیں اپنے دنیائی کاموں میں مصروف نظر آرہی تھیں۔

اتنے میں گلی سے شور آرہی تھی، ایسے عالم میں پتہ بھی نہیں چل رہا تھا کہ کیا ہو رہا ہے، یہ سب کیوں گلی میں اتنا شور مچا رہے ہیں اور یہ کون ہیں رش کش کررہے ہیں، تھوڑی ہی دیر اس گھڑی میں میں سوچ و خیالوں میں گم ہو گئی کہ ماجرا کیا ہے، نہ جانے کونسی مصیبت آگئی، سب سے سوال کرتی، اس ماں نے پوچھا کیا ہوا بتاؤ تو صحیح، ہر کوئی روہانسی جیسی شکل بنا کر آگے جانے سے گریز کررہا تھا، آخر ماں چیخ رہی تھی کوئی مجھے بھی بتاو کیا ہوا ہے پر کوئی بھی جواب نہیں دے رہا تھا.

ان کو دیکھ کر ماں اندزاہ لگا رہی تھی کچھ تو ہوا ہے، پتہ نہیں کونسی آفت ہم پر گری ہے، تھوڑی دیر بعد پتہ چلا کہ ماں کے لخت جگر کو دشمن نے اٹھا کر اغواء کیا ہے، ماں سب کو صبر اور حوصلہ دیکر کہہ رہی تھی تسبیح نکالو وظیفہ کرو، بہنوں کو کہہ رہی تھی حوصلہ رکھو اور بہنیں بھی جلدی جلدی تسبیح نکال کر محلے کے باقی خواتین اور بچیوں کو تسبیحاں دے رہیں تھیں۔

سب ورد میں لگ گئیں، ایسا ہی 7 سے 8 دن دعا اور خدا کو آواز دینے میں لگ گئے کہ پتہ بھی نہیں چلا یہ دوزخ کی آگ اس ماں کی دل میں کیسے گذری کیونکہ یہ وہی گھر تھا جو پہلے دن سے بنا تھا، اسی دن سے صرف خوشی ہی خوشی میں زندگی گذارے تھے، گھر کے بڑے نے اپنے گھر کو دیکھ کر اور نا جانے کتنے غریب گھروں کو نیک ارادہ اور کمک کی نیت سے خوشی دی تھی اور کتنے غریب گھروں کو عید کے لیئے کپڑے جوتے اور ضرورت کے سامان لے کر دیئے تھے کہ میرے گھر کے ساتھ ساتھ عید کی ان بڑے دنوں میں غریبوں کے گھروں میں بھی رونقیں و اجالا ہوجائے.

آج خود اسی گھر کے رونق ٹارچر سیلوں میں بند تھے، ہر طرف غم کا سماء تھا، گھر کا چراغ، سب کا لاڈلا جو دشمن کے ہاتھوں میں تھا اور 8 ویں دن صبح صبح اور بھی رش کش شروع ہوئی. طرح طرح کے لوگ گھر میں داخل ہونا شروع ہو گیے پتہ چلا اس گھر کے فرزند کو بزدل دشمن نے رات کی تاریکی میں گولیوں سے چھلنی کرکے لاش سڑک پر پھینک دی تھی۔ اور کچھ دیر میں رشتہ دار اور سب آبائی علاقے سے آکر پہنچ گئے۔

لیکن ماں کا حوصلہ و ہمت اور بھی زیادہ مضبوط ہو رہا تھا، ماں کو پتہ تھا کہ نظریہ اور وطن دوست فرزند کبھی مر نہیں سکتے، البتہ جسمانی طور جدا ہوتے ہیں لیکن مر نہیں سکتے. وہ ہمارے آس پاس ہوتے ہیں، ہم انہیں خوشبوؤں سے محسوس کر سکتے ہیں. ابھی تک تو شروع ہی ہوا ہے اور سب قریبی رشتہ داروں کو تسلی دے رہی تھی. اس گھر میں اور بھی فرزند تھے جو ہر وقت دشمن کو شکت دینے میں لگے تھے اور ماں بھی پکار کر شہادت کی مبارک بادی دے رہی تھی اور ظالم کو چیلنج کرکے کہہ رہی تھی یاد رکھنا میرے اور بھی فرزند ہیں، میں ایک ماں ہوکر رویا نہیں ہوں، آپ بھی رونا نہیں. ایسی مائیں بہت ہیں جو بلوچستان کے لیے اپنے لخت جگروں کو باری باری قربان کر رہی ہیں اور بھی مضبوطی کے ساتھ دشمن کے سامنے اپنا حوصلہ و ہمت کو ظاہر کر رہی ہیں، آج بلوچستان کے طول و عرض میں ایسی مثالی مائیں بہت ملیں گی.

یونہی وقت گذرتا گیا، ماں اس امید اور حوصلے سے خود کو تسلی بخش رہی تھی کہ فرعون اور یزیدوں کا وقت ہے اور انکا بھی خراب دن آئیگا. کہتے ہیں ہر کتے کا دن آتا ہے، آج انکا ہے کل ہمارا آئیگا اور مظلوم قومیں ہمشہ قربانی ہمت و حوصلے سے کام لیتی ہیں اور ہمشہ سامراج، یزیدیت کو مات دیتی ہیں، اس جذبے کو لیکر اپنی قوم اور جہد کار ہر فرزند کو ہمت اور مضبوطی کا درس دے رہی تھیں۔

پھر دو سال بعد اسی گھر کا سہارا غریبوں کا مسیحا، نڈر، بہادر، بزرگ کو اندیشہ گذرا کہ مجھے دشمن اپنی لغوری میں آکر قتل کریگا لوگوں نے بہت سمجھایا گھر کے سارے لوگوں نے پر یہی بات کہہ کر منع کرتا کہ میں خدا والا ہوں بھلا مجھ کیوں کوئی مارے گا۔ اگر مارے گا بھی تو میں پیٹھ دکھا کر بھاگ نہیں جاونگا بلکہ سینے میں گولی کھاؤنگا، پر میں بزدل نہیں ہوں جو کرنا ہے دشمن کرے. لیکن میں بھاگنے والوں میں سے نہیں ہوں۔ پھر دشمن اپنے لغوری میں آکر اس گھر کے بزرگ کو بھی شہید کرگیا اور اس گھر کے بچوں کا بہادر ماں پھر بھی اللہ کا شکر ادا کررہی تھی، بجائے آنسوؤں کے اپنے فرزندوں کو اور مضبوطی کا درس دیکر چٹان بنا رہی تھی۔

کچھ سال بعد ماں کو اچانک ایک اور خبر مل گئی کہ اس گھر کا ایک اور فرزند اپنے وطن کی دفاع میں شہید ہوا ہے، جو محاذ پر موجود تھا، ہر وقت دشمن کو ہکل دیکر مات دیتا رہتا تھا اور آخری سانس تک دشمن کو اپنے نئے نئے حکمت عملیوں سے شکست دیتا رہا اور انکا دوست اخبار میں انکی شہادت کی خبر دے چکے تھے، لیکن پھر بھی یہ ماں پہلے کی طرح چٹان بنکر اپنے بیٹوں اور ان کی جہد کار دوستوں کو تسلی دے رہی تھی کہ وطن کی جنگ سے منہ موڑ کر واپس کبھی نہ آنا.

کچھ وقت بعد خبر چھپ گئی کہ کچھ دلال جو لوگوں کا جینا محال کیئے ہوئے تھے، جو غریب لوگوں پر ظلم کر رہے تھے، بہت سے گھروں کے سہاروں کو بغیر وجہ روند رہے تھے اپنے ظلمت کو برقرار رکھنے کے لیئے اور بھی بہت سے سماجی اور قوم دشمنی اپنے نا پاک خیالوں میں کردار ادا کرہے تھے اور ظلم کے سامنے اپنا بدنام نام کما رہے تھے۔ دشمن کو خوش کرنے کے لیئے کہ ہمیں اور طاقت دیں، یہ لوگ ریاست کے پالتو کتے تھے، جو انہیں پال پوس کر ان کاموں کی شاباشی بھی دے رہی تھی۔

آج اس ماں کے فرزندوں کے دوستوں نے انہیں اپنے انجام تک پہنچایا تھا اور ماں نے سب جہدکار دوستوں کو اپنا بیٹا پکار کر اپنایا تھا، ان ظالموں کے جسم بھی ٹکڑوں کی شکل میں چاروں طرف پھیلے ہوئے تھے، جو کسی انکے اپنے کو دیدار بھی نصیب نہیں ہوا تھا۔

لوگ انہیں دیکھ کر عبرت کی مثال دے رہے تھے اور ساتھ ساتھ ہر طرف خوشیوں کا سماں تھا. آج زمین بھی ٹھنڈی آہیں بھر رہی تھی کہ ایک ظالم اس کے سینے سے کم ہو گیا تھا اور لوگوں کے منہ میں یہ بات تھی اللہ پاک جب ظلم کو پکڑتا ہے یا مارتا ہے بے شک ظلم کو بے موت مار دیتاہے۔ وطن کے فرزندوں کے لیئے سلامتی کی دعا نکل رہی تھی۔

بلوچستان میں ایسی بہت سی ماؤں کی مثال موجود ہے، آج ہمارے مائیں ظلم کا سامنے ایک حوصلہ و ہمت کی نشان بن کر کھڑی ہیں، ایک ماں ہونے کے ناطے اپنی دھرتی کا قرض چکا رہی ہیں.


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔