شعور کی پختگی یا جذباتی پن
تحریر: شہیک بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
سماج میں انسانی کردار کے مقام کو تلاش کرتے اس کی حقیقی معنوں میں مفہوم و تشریح پر غور کریں تو کیا انسانی کردار محض جذباتی پن کا ایک اظہار ہے؟
شعور کی کیفیت کو اگر کچھ لوگ جذباتیت کا لیبل لگا کر رائے عامہ کو بدزن کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو کیا وہ واضح کرسکتے ہیں کہ انقلابی جدوجہد میں قربانی دینے والا کردار اگر جذباتی پن ہے تو عقل کی کسوٹی پر شعور کی پختگی کو پرکھنے کے لیئے کس کردار کو بطور ماڈل پیش کیا جاسکتا ہے؟
کون ذی شعور اس حد تک کھوکھلے جذباتی پن کا شکار ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے سب سے قیمتی رشتوں کی قربانی تک کو برداشت کرسکے؟ سب سے زیادہ جذباتی انسان اپنے قریبی رشتوں کے لیے ہوتا ہے لیکن یہاں ایک اجتماعی مقصد کے لیے انہی جذبات سے بالاتر ہورہا ہے تو یہ شعور کی پختگی نہیں تو اور کیا ہے؟
بلوچ نیشنلزم نے بلوچ فرزندوں کو شعور و آگہی سے لیس کیا، بی ایس او کے سرکلز و تربیت نے انہیں فلسفہ، سماجی علوم سمیت عالمی علم سیاسیات کی روشنی دی اور انہیں اندھا پیروکار بننے کی بجائے ایک ایسے کردار میں ڈھال دیا جہاں وہ علاقائی و قبائلی محدود سوچ سے بالاتر ہوکر اپنا عملی کردار ادا کریں لیکن ان کے اس نئے کردار کو روایتی و قبائلی ذہنیت نے تسلیم کرنے کی بجائے ان پر جذباتیت کا لیبل لگا دیا۔
ڈاکٹر اللہ نذر نے اس حوالے سے نہایت واضح موقف نہایت مدلل انداز میں پیش کیا کہ دنیا کی کونسی جدوجہد مصلحت پسندی یا بے دلی سے کامیابی سے ہمکنار ہوئی؟ “ہر نظریہ، ہر تخلیق کے پیچھے ایک جذبہ کارفرما ہوتا ہے۔” اور ہمیں اپنے اجتماعی مقصد کے لیے جنون کی حد تک پاگل پن کی حد تک جذباتی ہونا پڑیگا تب جاکر ہم اپنے مقصد کو حاصل کرینگے۔
جذبہ ہماری رہنمائی نہیں کررہا ہے بلکہ جذبہ ہمیں حوصلہ دے رہا ہے جبکہ رہنمائی شعور کی ہے۔ بے مقصد جذباتیت بہت جلد ٹھنڈی پڑ جاتی ہے جبکہ یہ شعور کی پختگی ہے کہ بلوچ فرزند ہر طرح کے شدید مشکلات کے باوجود نوآبادیاتی نظام کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ ایک جانب ریاست کا جبر ہے دوسری جانب عالمی قوتوں کا گیم اور اس کے باوجود بلوچ جہدکار اپنے جدوجہد کو آگے بڑھا رہا ہے، مایوسیوں کو توڑ رہا ہے۔ آج شعور اس سطح تک پہنچ چکا ہے جہاں بلوچ جہدکار اپنے مرنے کے اختیار تک کو خود استعمال کررہا ہے، ان قربانیوں کا مقصد صرف اور صرف مادر وطن کی آزادی اور ایک نیا سماج کا قیام ہے۔ انفرادی سطح پر کون چاہتا ہے کہ وہ پہاڑوں میں سخت ترین زندگی گذار سکے، پہاڑوں کی زندگی کوئی آئیڈیل زندگی نہیں نا ہی کوئی کمفرٹ زون ہے بلکہ کسی بھی لمحہ کچھ بھی ہونے کا اندیشہ موجود رہتا ہے۔ یہاں سطحی جذباتیت چند دن تو کجا چند گھنٹے بھی گذار نہ سکے لیکن وطن زادے تو ان کو اپنا مسکن بنا چکے ہیں اور مقصد صرف یہی ہے کہ آنے والے دور میں کسی کو پہاڑوں پر نہ جانا پڑے۔ کسی کو فدائی حملوں کے انتہا تک پہنچنا نہ پڑے، احتجاجی کیمپوں کی جگہ پارک میں اولاد والدین کے سامنے ہوں، بچوں کے ہاتھوں میں گمشدہ والد کی تصویر کی بجائے اس کا ہاتھ ہو جو انہیں کھلونے تھمائیں۔ امن ہو، بطور انسان ایک اچھا معیار زندگی ہو۔
کون ہے جو زندگی کی ان حقیقتوں سے انکار کرسکتا ہے؟ کون ہے جو بغیر جدوجہد کے ایک بہتر سماج کے قیام پر یقین رکھتا ہے؟ نئے سماج کا قیام اس قدر آسان نہیں یہ بہت بھاری قیمت چکانے کے بعد ہی وقوع پذیر ہوسکتا ہے۔ ہمیں اس بابت سنجیدگی سے سوچنا ہوگا اور عملی طور پر برسرپیکار جہدکاروں کی شعوری پختگی، ان کی قربانیاں اور اس سب سے کھٹن مرحلہ میں ان کی آواز بن کر اپنا کردار ادا کرنا ہوگا کیونکہ یہ جدوجہد اجتماعی بقاء کی جدوجہد ہے۔ وہ کوئی بھی فیصلہ کرتے وقت صرف اسی اجتماعی بقاء کو ذہن میں لاتے ہیں، ذاتی شوق کی خاطر کوئی اولاد کی قربانی نہیں دیتا نا ہی خاندان کے 45 افراد کی لاش اٹھا کر اللہ نذر خواہش لیڈری کا شکار ہے بلکہ یہ شعور کی پختگی ہے کہ تمام تر مشکلات کے باوجود جدوجہد جاری ہے۔
جدوجہد جاری رہیگی، بلوچ جہدکار کا عزم اس جدوجہد کو کامیابی تک پہنچائے گا لیکن نوجوانوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا انہیں سنجیدگی سے تحریک میں شامل ہوکر اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔