شاید میں بڑا ہوگیا ہوں!
تحریر: حیراف بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
جب میں نویں جماعت کا طالب علم تها، تو میں سکول پہنچنے کیلئے روز بیس سے پچیس کلومیٹر کا فاصلہ سائیکل پہ طے کرتا تها، کبهی وقت پہ پہنچ جاتا اور کبهی مار کهاکے کلاس میں بیٹھنے کو ملتا، تو کبهی روز کا یہی معمول جان کر اساتذه مجهے سکول سے باہر نکلنے کا کہتےاور میں کبهی گراؤنڈ میں بیٹھ کر آپنا وقت گذارتا، تو کبهی سکول کے وقت میں بهی دُکان چلا جاتا جہاں میں کام کرتا تها۔
میں روز انہی جھنجھٹوں میں پستا رہتا تها، میرا بچپن کام اور سکول کی پریشانیوں میں گُذر رہا تها مگر مجهے کبهی یہ خیال نہیں رہتا تها، میں اکثر اُن بچوں کو بڑی حسرت بهری نگاہوں سے دیکھتا تها، جو سکول کے بعد کهیلتے کودتے نظر آتے. بچوں کو میں بہت خوش نصیب سمجھتا تها، جو سکول کے کینٹین میں کچھ بهی لینے کی استطاعت رکهتے تهے۔.
شاید یہ سب میرے چہرے پر اور میری آنکهوں میں صاف نظر آتا تها، شاید اسی لیئے بعض لوگ مجھ سے ہمدردی جتاتے تهے، چند گنے چُنے لوگ ایسے تهے، جن کی ہمدردی میں مجهے پیار نظر آتا تها، باقی سب ثواب کے لالچی تهے، رعا کار لوگ تهے. جن کی ہمدردی نے مجهے احساس کمتری کا شکار بنا دیا۔
میں ہمیشہ خود کو کمتر تصور کرتا تها اور شاہد میں تها بهی، میں بات کرنے سے ڈرتا تها، اکثر لوگ مجهے میری چهوٹی سی بات کا سزا بهی دیتے۔ جن کے بس میں ہوتا وه مارتے پیٹتے اور باقی بهڑاس نکال کر ناراض ہوجاتے اور میں؟ میں اُنکے ہمدردی کی پهر سے آس لگا بیٹهتا کہ شاید وه پهر مجھ سے بات کرلیں.
میں ایک دن سکول کے کینٹین میں آپنے دوستوں سے دور بیٹھے انکو کهانا کهاتے دیکھ رہا تها. میں جس طرح سے دیکھ رہا تها وه تو مجهے پتا نہیں، مگر مجهے دیکھ کر میرے ایک شفیق اُستاد نے مجهے بُلایا، میرے سر سے بوسہ لے کر کچھ کہے بغیر مجهے کچھ پیسے دیئے اور کہا کہ جلدی کینٹین جاؤ آدهی چهٹی ختم ہونے والی ہے۔
میرے آنکهوں میں آنسو تهے، مجهے کهانا کهاتے ہوئے بالکل مزه نہیں آیا، مگر میں خوش بہت تھا، دل سے بس، بے بس دُعائیں ہی نکل رہے تهے۔ میں صبح سکول جاتا اور چهٹی کرکے کام پہ جاتا. جہاں سے مہینے کے مُجهے پندره سوروپے ملتے جو میرا بڑا بهائی اُٹهاتا تها اور گهر کے ضروریات میں خرچ کرتا اور ایک دن ایسا آیا جب مجھ سے تین هزار اور کچھ روپے امتحانی فیس کیلئے طلب کیا گیا۔ تب سمجھ نہیں آرہا تها کیا کروں، کس سے مانگوں، اپنی ماں سے بات کی اُستاد سے کہا مگر اُستاد نے بہانہ بنا کے جان چهڑا لیا اور یوں میں امتحان نہ دے سکا.
رات کو جب میں سائیکل پہ گهر جارہا تها تو بے اختیار میرے آنسو نکل پڑے، میں پورے راستے میں روتا رہا، اپنی بے بسی پر، میرا ایک سال ضائع ہوگیا، میرے پاس میرے سال کے 365 دنوں کے تین هزار روپے نہیں تهے۔ میں بچپن میں اکثر اپنی بے بسی پہ، اپنی شومئی قسمت پہ روتا رہتا تها۔
جب ماں کی اچانک سے نظر میری آنکهوں پہ پڑتی، تو وه مجھ سے مزاقیہ انداز میں پوچهتی کس لڑکی کیلئے رو رہے ہواور میں کہتا کہ امی پیٹ میں بہت درد ہے اور کڑوی دوائی نا چاہتے ہوئے بهی پینی پڑتی۔
بے بسی اور احساس کمتری تو اب بهی میری زندگی میں کہیں نا کہیں موجود ہے، آج بهی میں زندگی کے ہر شعبے میں دوسروں کے رائے کو اکثر آپنی رائے پہ فوقیت دیتا ہوں، جب کچھ لکهنے کی کوشش کرتا ہوں یا لکهتا ہوں تو کچھ دوستوں کو دکها کر پوچھتا ہوں کہ کہیں میں نے کچھ غلط تو نہیں لکها۔
میں دوسروں سے لازماً اس حوالے دریافت کرتا ہوں کہ آپکو کیسے لگا، آج بهی شاید مجهے خود پہ اعتماد نہیں، مگر آنسوؤں نے جیسے رشتہ توڑ دیا۔ مسائل اب بهی بہت ہیں. مگر آنسو نہیں بہتے، شاید میں بڑا ہوگیا ہوں، شاید میں مضبوط بن گیا ہوں، یا شاید میں بدل گیا ہوں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔