سیاسی بحرانی کیفیت – غنی بلوچ

442

سیاسی بحرانی کیفیت

تحریر: غنی بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

جب کسی ملک میں انقلاب آتا ہے تو اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی کہانی ضرور ہوتی ہے، اسی طرح جب روس میں انقلاب آیا تو اس کے پیچھے بھی بہت ساری وجوہات تھیں۔ کس طرح کسانوں، مزدوروں اور غریبوں پر ظلم و ستم ڈھائے گئے، کس طرح ان کے حقوق سلب کیئے گئے یعنی کمزور اور لاچار کی کوئی زندگی نہیں تھی، پھر کیا ہوا بغاوت اور انقلاب کیلئے راستے ہموار ہوگئے۔

جب اظہار رائے کے تمام راستے بند کر دیئے جائیں، اور تمام راستے محدود کر دیئے جائیں ، محکوم اقوام کے حقوق سلب کیے جائیں ، تو احتجاج کے طور پر بغاوت بھڑک اٹھتی ہے ، اور پھر یہ تشدد اور خون ریز ہوتی ہے اور انہی بغاوتوں کے ذریعے محروم طبقے اپنے حقوق کی جنگ لڑتے ہیں۔

البرٹ کامیو بغاوت کے پس منظر پر لکھتے ہوئے کہتا ہے کہ “بغاوت کا نتیجہ موت ہوتا ہے، مگر باغی اسے آزادی کی خاطر قبول کرتا ہے، وہ پیروں پر کھڑا ہو کر مرنا قبول کرتا ہے۔ اس کے نتیجے میں اس کی اندرونی صلاحیتیں ابھرتی ہیں اور دور غلامی میں اس کی شخصیت پر جو زنگ چڑھ گیا تھا بغاوت کے بعد وہ زنگ چھٹ جاتا ہے۔ بغاوتی، مزاحمت اور انکار اس کی شخصیت کو جاندار بنا کر اس میں اعتماد اور یقین کو پیدا کرتی ہے۔ وہ بغاوت کرکے حقوق کی خاطر موت کو قبول کر لیتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اسے اپنی زندگی سے زیادہ حقوق عزیز ہوتے ہیں اور وہ ان کی خاطر جان دینا گوارا کر لیتا ہے۔ اگرچہ ان حقوق کا تعلق صرف اس کی اپنی زندگی سے نہیں ہوتا ہے بلکہ دوسرے انسانوں سے بھی ہوتا ہے اور ان میں وہ لوگ بھی شامل ہوتے ہیں جو کہ ظالم اور استحصالی ہوتے ہیں اس لیئے بغاوت محض اپنی انا کی تسکین کیلئے نہیں ہوتی۔ بلکہ وہ اس غصے اور جذبے کے ساتھ ہوتی ہے کہ جو چیز دوسروں کے پاس ہے وہ ان کے پاس کیوں نہیں۔”

اگر لبرٹ کامیو کے باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم اس وقت بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کو دیکھیں تو وہاں بلکل ایک بحرانی کیفیت نظر آرہی ہے، اس وقت تمام مکاتب ء فکر کے لوگ اپنے اپنے حقوق کیلئے روڈوں پر نکلے ہوئے ہیں اور اپنے احتجاجی مظاھروں میں احتجاجی کیمپوں میں وقتاً فوقتاً حکمرانوں اور خاص کر حکومت وقت کے خلاف شدید نفرت کا اظہار بھی کرتے نظر آرہے ہیں، ایسا لگتا ہے تمام لوگوں کا اعتماد حکومت سے اور حکومتی اداروں سے ختم ہو چکا ہے۔

یعنی کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اظہار رائے کے تمام راستے بند کردیئے گئے ہیں، تمام مکاتب فکر کے لوگوں کی حقوق سلب کیئے گئے ہیں، اسی پس منظر میں ڈاکٹر مبارک علی لکھتے ہیں۔

بغاوت کے ذریعے تاریخی عمل میں ہمیشہ تبدیلی آتی رہتی ہے، بغاوتیں اگرچہ مضبوط اور مستحکم اداروں اور روایات کو کمزور تو کرتی ہیں اور ان کی مضبوطی کو صدمہ تو پہنچاتی ہے مگر یہ انہیں مکمل طور پر تباہ نہیں کرتیں۔ بغاوتیں ،ہلچل، انتشار اور بے چینی کو پیدا کرتی ہیں، مگر کسی نظام کو بدلتی نہیں۔ اس لیئے بغاوت اور انقلاب میں فرق ہوتا ہے، جہاں بغاوت ناکام ہوتی ہے وہاں انقلاب کامیاب ہوتے ہیں، لیکن کوئی انقلاب اس وقت تک کامیاب نہیں ہوتا جب تک کہ مسلسل بغاوتوں کے ذریعہ کسی نظام کو کمزور نہیں کیا جائے ،اس پر کاری ضربیں لگا کر اس کی بنیادوں کو ڈھا نہ دیا جائے۔کسی بھی نظام اور اس کے اداروں کو بغاوتوں کے ذریعہ اس قدر خستہ کر دیا جاتا ہے کہ انقلاب انہیں گرا کر ایک نئے نظام کی تشکیل کرتا ہے۔

اگر ہم اس تمام تر صورتحال کو بغاوت کا نام دے تو میرے خیال میں غلط نہیں ہوگا کیونکہ سب سے زیادہ سوچنے والی بات یہ ہے کہ یہ تمام لوگ جو احتجاج کر رہے ہیں وہ کسی بھی سیاسی پارٹی کے مدد اورتعاون کے بغیر کر رہے ہیں ایسا لگتا ہے کہ سب کے اعتماد سیاسی پارٹیوں سے اٹھ ہوچکا ہے، ہر کوئی اپنی مدد آپ کے تحت اپنا احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں، سیاسی پارٹیاں مگر مچھ کے آنسو لے کر کیمپوں میں تو پہنچ جاتے ہیں لیکن جو متاثرہ لوگ ہیں ان کو بھی پتہ ہے کہ یہ سب کریڈٹ اور سیاسی پوائنٹ اسکورنگ ہو رہی ہے اس کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہے۔

اس وقت پورے بلوچستان میں ایک سیاسی خلا پیدا ہوگیا ہے اور سیاسی بحرانی کیفیت چل رہی ہے کیونکہ گراؤنڈ میں جتنے بھی سیاسی پارٹیاں ہیں ان سب سے لوگوں کا اعتماد ختم ہوچکا ہے کوئی بھی اس چیز کیلئے تیار نہیں ہے کہ اپنے تمام مطالبات کسی بھی سیاسی پارٹی کے ذمہ داری میں دیں تاکہ اس پارٹی کی لیڈر شپ مختلف پلیٹ فارم پر ہمارے لیے جدوجہد کرینگے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ یہ سیاسی پارٹی اپنا اعتماد کھو چکے ہیں۔ اور اس وقت بھی پورے بلوچستان میں ایک طبقہ ہے جو خاموش رہ کر سب کچھ دیکھ رہا ہے، وہ طبقہ شاید کسی تبدیلی کے انتظار میں ہے یا شاید وہ طبقہ خاموش رہ کر خاموشی سی اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔

شاید یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ خاموش طبقہ کسی ویژنری لیڈر شپ کے انتظار میں ہیں کہ کوئی ایسا گروہ درمیان میں آجائے اور جو اپنے وژن اور قابلیت کے بنیاد پر اس طرح تمام ت حالات کا کایا پلٹ دے۔ اور ان تمام مکاتب ء فکر کی نمائندگی کرکے جو بحرانی کیفیت ہے اور بد اعتمادی ہے ان کو لے کر ایک نئی سورج کیلئے راستہ ہموار کریں۔ کیونکہ جب بغاوت ناکام ہوتی ہے پھر انقلاب آجاتا ہے اور میرے خیال میں بغاوت ایسے احتجاجی مظاہروں اور بداعتمادیوں اور حقوق کے سلب ہو جانے سے پیدا ہوتی ہے لہٰذا اگر کمی ہے تو دور اندیش اور ویژنری لیڈر شپ کی جو تمام تر صورتحال کو بھانپ کر ان حالات کو اپنے حق میں استعمال کرکے ایک نئی سورج روشن کرے کیونکہ اس وقت اگر بلوچستان کے لوگوں کو ضرورت ہے تو وہ ایک ایسے انقلاب کی ضرورت ہے جو اس سماج کو ختم کرکے ازسر نو ایک نیا سماج تشکیل دے ۔

ہم امن چاہتے ہیں مگر ظلم کے خلاف
گر جنگ لازمی ہے تو پھر جنگ ہی سہی
یہ زر کی جنگ ہے نہ زمینوں کی جنگ ہے
یہ جنگ ہے بقا کے اصولوں کے واسطے
جو خون ہم نے نذر دیا ہے زمین کو
وہ خون ہے گلاب کے پھولوں کے واسطے
پھوٹے گی صبح امن لہو رنگ ہی سہی ۔
ساحر لودھیانوی


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔