راشد حسین کو متحدہ امارات حکومت نے غیر قانونی طور پر پاکستان کے حوالے کیا – بی ایچ آر او

265

بیرون ممالک میں مقیم بلوچ مہاجرین کی سی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے اور انہیں اپنی زندگی حوالے شدید تحفظات درکار ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ نمائندہ کوئٹہ کے مطابق بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کی جانب متحدہ عرب میں انسانی حقوق کے کارکن راشد حسین کی گمشدگی بعد پاکستان حوالگی کے حوالے سے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے پریس کانفرنس کی گئی جبکہ اس موقعے پر وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے رہنما ماما قدیر بلوچ سمیت دیگر افراد موجود تھے۔

بی ایچ آر او کے وائس چیئرپرسن طیبہ بلوچ نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہ جیسا کہ آپ سب کہ علم میں ہے کہ بلوچستان ایک انسانی بحران کی سی کیفیت میں مبتلا ہے جہاں آئے روز سکیورٹی فورسز کے غیر اعلانیہ آپریشن کی آڑ میں ہزاروں لوگوں کو ماورائے عدالت قتل و گرفتار کیا جاچکا ہے۔ بلوچستان میں ہزاروں کی تعداد میں بلوچ سیاسی کارکن، وکلا، دانشور، ڈاکٹر اور طلباء کو ماورائے عدالت گرفتار کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا ہے جہاں انسانیت سوز تشدد کے بعد ان کی لاشوں کو مسخ کرکے مختلف علاقوں میں پھینکا گیا ہے اور کئی ایسے اجتماعی قبریں دریافت ہوچکے ہیں جن میں لاپتہ افراد کو دفنا دیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سیکیورٹی اداروں کی جانب سے جاری آپریشنوں کی وجہ سے متعدد خاندان نقل مکانی کرکے دوسرے شہروں اور دیگر ملکوں میں صرف اپنی جان بچانے کی غرض سے چلے گئے ہیں لیکن گذشتہ کئی عرصوں سے ہمیں دیکھنے کو مل رہا ہے کہ اپنی مجبوریوں کی وجہ سے نقل مکانی کرنے والے لوگوں کو کراچی، پنجاب اور ملک کے دیگر شہروں سے بھی ماورائے عدالت گرفتار کیا جارہا ہے اور جو بلوچ بیرون ممالک نقل مکانی کرچکے ہیں انہیں بھی مختلف طریقوں سے ڈرایا اور دھمکایا جارہا ہے تاکہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو اجاگر نہ کرسکے۔

طیبہ بلوچ نے کہا آج بیرون ممالک میں مقیم بلوچ مہاجرین کی سی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے اور انہیں اپنی زندگی حوالے شدید تحفظات درکار ہے۔ بیرون ممالک مقیم بلوچ بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں کو اجاگر کرنے سے خطرہ محسوس کررہے ہیں۔

انہوں نے کہا پچھلے کچھ عرصوں سے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے بلوچ سیاسی کارکنان، انسانی حقوق کے ممبران اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ سمیت مختلف طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو ماورائے عدالت گرفتار کیا جاچکا ہے۔ اسی تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں کو اجاگر کرنے میں پیش پیش راشد حسین بلوچ کو متحدہ عرب امارات کی خفیہ ایجنسی نے چھبیس دسمبر 2018 کو بناء کسی جرم و ثبوت کے لاپتہ کردیا اور چھ مہینے لاپتہ رکھنے کے بعد حکومت پاکستان کے حوالے کردیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ راشد حسین بلوچ کی ماورائے عدالت عرب امارات میں گرفتاری قابل مذمت عمل ہے ایک بے گناہ بلوچ جسے بغیر کسی جرم کے چھ مہینے قید میں رکھا گیا۔ راشد حسین کی گرفتاری کے خلاف بلوچ سوشل میڈیا ایکٹیوسٹوں نے سوشل میڈیا میں بھرپور تحریک چلائی اور اس کیس کو اجاگر کرنے کے لئے مختلف فورمز میں آواز اٹھائی لیکن متحدہ عرب امارات کی حکومت ٹھس سے مس نہ ہوئی اور اس حوالے کسی ذمہ داری کی مظاہرہ کرنے سے مکمل قاصر نظر آئی۔
‏‎حالانکہ بلوچ سیاسی کارکنان سمیت انسانی حقوق کے اداروں اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی متحدہ عرب امارات حکومت سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ راشد حسین بلوچ کو منظر عام پر لایا جائے اور اگر راشد حسین سے کوئی جرم ہوا ہے تو اسے عدالتوں میں پیش کرکے عرب قوانین کے مطابق سزا دی جائے لیکن عرب امارات نے اپنے آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے راشد حسین کو پاکستان حکومت کے حوالے کردیا۔

انہوں نے کہا کہ حکومت پاکستان نے اپنے بیان میں راشد حسین کو چینی قونصلیٹ میں حملوں کا مرکزی ملزم قرار دیا ہے۔ ہم حکومت پاکستان سے اپیل کرتے ہیں کہ اگر راشد حسین کے خلاف کوئی ثبوت ہے تو اسے عدالتوں میں پیش کرکے اپنی بے گناہی پیش کرنے کا موقع دیا جائے اس طرح ایک سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ کو ملزم قرار دیکر حبس بے جا میں رکھنا آئین و قانون کی خلاف ورزی ہے جس کی ہم مخالفت کرتے ہیں۔

بی ایچ آر او رہنما نے کہا کہ بلوچستان انسانی حقوق کی پامالیوں کی وجہ سے شدید بحرانی حالت سے دوچار ہے جس کی اہم وجہ میڈیا کی خاموشی ہے ہم اس پریس کانفرنس کی توسط سے صحافی حضرات سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ وہ راشد حسین کی ماورائے عدالت گرفتاری کو اجاگر کرنے میں بلوچ ہیومین رائٹس آرگنائزیشن اور دیگر بلوچ سوشل میڈیا ایکٹیوسٹوں کا ساتھ دیں تاکہ بلوچستان میں انسانی جانوں کو محفوظ کیا جاسکے اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ جو انسانی حقوق کی پامالیوں کو اجاگر کرنے میں پیش پیش ہیں انہیں بھی تحفظ فراہم کیا جاسکے۔