دا گنوکو قوم ئسے گڑا انتکنن جنگ کننگن؟ ۔ نود شنز ہلمندی

224

دا گنوکو قوم ئسے گڑا انتکنن جنگ کننگن؟

تحریر۔ نود شنز ہلمندی

دی بلوچستان پوسٹ

کسی فٹبال کے کھیل میں برسوں بعد کسی انقلابی دوست سے ملاقات ہوا، تو دوست پرجوش اور اسی ولولے کے ساتھ پر رونق نظروں سے میری طرف دیکھ کر کہنے لگا پوری قوم پاگل ہے، میں حیرانگی کی کیفیت میں ڈوب کر سوال کرنے پر مجبور ہوا کہ وہ کیسے؟
حالانکہ دوست اپنی جگہ درست بھی تھا اور کر بھی مزاق رہا تھا۔ دوست کہنے لگا کہ اب دیکھو یہ سب تماشائی اس بات پر ہنس رہے ہیں کہ ڈاکٹر کے ہاتھ میں کوئی بیگ یا بریف کیس نہیں ایک کاغذ کی تھیلی ہے، جس میں ایک اسپرے اور کچھ پلسٹر کے علاوہ کچھ نہیں۔ میں اس وقت ہنسنے سے اپنے آپکو نہیں روک سکا، پرذہن میں اک سوال کھٹکتا رہا۔

اگہ دا گنوکو قوم اسے گڈا انت ءِ نن جنگ کننگنُ؟ ( اگر یہ قوم پاگل ہے تو ہم جنگ کیوں لڑ رہے ہیں؟)

اس بات پر غور کیا، کچھ مثبت وجوہات میرے ذہن میں آئے کہ اگر یہ پاگل ہیں تو کیوں ہیں؟
کیوں یہ چھوٹی سی بات پر ہنستے یا شاید مسکراتے ہیں اپنے درد اور غم بھلانے کیلئے، یا واقعی یہ پاگل ہی ہیں کہ اتنی سی بات پر اپنے ہی معاشرے میں دوسروں کی تذلیل کریں؟

اگر ہم اس پاگل پن کو اپنے علاوہ کسی اور پر لاگو کریں اور اسکو پرکھنا شروع کریں تو مجھے یہ پاگل پن نہیں سامراج کی دی ہوئی عنایت نظر آنے لگتی ہے۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ اپنے غیر اخلاقی رویے پر ریاست یا زیادہ صحیح معنوں میں نام لوں تو سامراج کو کیوں قصوروار ٹہراوں؟

اگر امریکہ میں لوگوں کے برابر حقوق ہوتے ہوئے بھی سیاہ فام اور گوروں میں اتنا فرق ہے؟

۱-کیا واقعی سیاہ فام گوروں سے ذہنی قوت میں کم ہیں ؟

۲-کیا انکے رہن سہن میں جاہلیت پائی جاتی ؟

۳-کیا انکے بچے گوروں سے کمزور تر ہیں؟
کیا وہ ذات میں گوروں سے کم ہیں؟ نہیں کیونکہ ذات پات خودساختہ اور سماج کی بنائی ہوئی (constructed ) چیزیں نہیں ہیں کیا؟

سوال پھر وہیں آکر رکتا ہے کہ پھر یہ سب ( مندرجہ بالا سوالات کی حقیقت) کیا ہے؟

یہ وہ سامراجی عزائم ہیں کہ جن کو اس وجہ سے دوام بخشا گیا ہے کہ دنیا کو یہ باور کرایا جائے کہ سیاہ فام غیر تہذیب یافتہ اور غیرمہذب ہیں اور ان پر گوروں کی تسلط قانونی اور جائز ہے۔ یہ ان سامراجی پھیلائی ہوئی سوالات کے جال کا حصہ ہیں کہ “افریقی امریکی” امریکہ کی اپنی عمرانی معاہدے اور آئین نے انکو برابر قرار دیا ہے تو انکو کیونکر الگ قومیت ظاہر کیا جاتا ہے؟

ٹھیک اسی طرح، بلوچ اگر برابر ہیں تو انکے ساتھ جاہل اور نادان اور غیر تہذیب یافتہ کے القابات سے کیوں نوازا جاتا ہے؟

اپنے نسابی کتابوں میں کیوں انکو جاہل ظاہر کیا جاتا ہے ؟ یقیناً یہ دانستہ طور پر کیئے جارہے ہیں۔ اسکا مقصد اور کچھ نہیں بلکہ پنجابی تسلط کو تقویت بخشنا ہے جو کہ کسی قوم جو پنجابی سے ہزار درجے زیادہ مہذب اور سماجی طور پر با شعور ہے اس کو محکوم کرنا اور اسکا استحصال کرنا ہے۔ یہ ہمیشہ سے کالونائزر سامراجوں کا وطیرا رہا ہے کہ وہ اپنے غیر آئینی اور غیر اخلاقی حرکات کو جاہلیت جیسے غیر مہذب اور غیر رسمی القابات سے نواز کر محکوم قوموں کا مورال گرا کر آئینی اور جائز قرار دیتے ہیں۔

یقیناً اس بات کو بطور جواز یا مایوسی کی وجہ بنانا کہ قومیں خود جاہل اور غیر مہذب ہوتی ہیں، اتنا ہی غلط اور بےمعنی ہے جتنا کہ “ایک کبوتر کا اپنی آنکھیں بند کر کے یہ تصور کرنا کہ اسے بلی نہیں دیکھ سکتی”

قوموں کو انکی نسل ، جغرافیہ، رنگ یا غلام ہونا انکے مورال کو نیچے نہیں گراتی بلکہ یہ سوچ کہ وہ غلام ہیں اور وہ اس سے نکل نہیں سکتے انکے مورال گر جاتے ہیں۔ اسکی مثال نیلسن منڈیلا کی ہے، جو اسی سیاہ فام نسل سے تھا، کیا وہ بہادر نہیں تھا؟ کیا مارٹن لوتھر کنگ بہادر نہیں تھا؟

سامراج ہمیشہ نفسیاتی کھیل، کھیل کر ان قوموں کے مورال گراتے ہیں جنہیں وہ اپنے غیر فطری عزائم کیلئے خطرہ اور موت سمجھتے ہیں۔

مجھے امید سے بڑھ کر یقین ہے کہ جب ہم آزاد اور اپنے وطن کا واک و اختیار خود سنبھال لینگے، تو یہ قوم پڑھیگی بھی اور آگے بڑھے گی۔ اور ان اقوام دنیا سے برابری کی بنیادوں پر اس دنیا کے نقشے پر تا قیامت نقش ہوگا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔