حد کردی آپ نے
تحریر: میار بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
مشہور ہندوستانی فلم اسٹار گووندا نے سنہ دو ہزار میں اپنے رومانٹیک کامیڈی مووی “حد کردی آپ نے” میں تقریباً دس مختلف کردار ادا کئے تھے، اور سب سے بڑھکر وہ ایک سین تھا جس میں گووندا جی ایک ہی وقت میں ایک ہی کمرے میں سات مختلف لوگوں کا کردار نبھاتے ہوئے دیکھے گئے تھے۔ خیر وہ تو کیمرے اور میک اپ کے کمال سمیت کامیڈی اور ڈانس کے بادشاہ کے بہترین اداکاری کا مظاہرہ تھا لیکن کیا ایسا سوچنا حقیقی زندگی میں عجیب اور بیوقوفانہ سا نہیں لگتا کہ ایک ہی شخص یہ اعلان کر دے کہ میں ہی سب کچھ ہوں مثلاً میں بیک وقت، سیاستدان، سفارتکار، صحافی، مزاحمت کار، عام انسان اور نوابزادہ سب کچھ ہوں، مجھ میں دنیا کے تمام رہنماوں کی خوبیاں بھی قدرتی طور پر موجود ہیں اور یہ باقی تمام جو لوگ ہیں یہ نِل بٹا سناٹا ہیں۔
چلیں شروعات سے شروع کرتے ہیں موجودہ بلوچ قومی تحریک جو تقریباً گذشتہ دو دہائیوں سے جاری ہے۔ اس تحریک کی شروعات کیسے ہوئی ۔ بعض دانشوران اسے مرحوم نواب خیر بخش مری کی افغانستان سے واپسی اور انکے بنائے گئے سرکل حق توار کا مرہون منت قرار دیتے ہیں ۔ لیکن فرد واحد کے مطابق یہ انکا پیدا کردہ ہے اور وہ اکیلے ہی افغانستان سے بلوچستان مڈی اپنے کاندھے پر لاد کر لائے تھے ۔ جبکہ نواب مری، میر عبدالنبی بنگلزئی ، میر محمد علی ٹالپر ، اُستاد واحد کمبر سمیت دیگر تمام لوگ نہ صرف سست روی کا شکار تھے بلکہ وہ انکے اس عمل سے خوش بھی نہیں تھے۔ پھر کیا تھا نواب مری کیخلاف محاذ کھلنا اور انکے کردار کو مسخ کرنے کی تمام تر ناکام کوششوں کے بعد نواب مری کے وفات پر یوٹرن لیکر انہیں اپنا سیاسی اُستاد قرار دینا اور انکی ثناء و توصیف شروع کردینا۔
بلکل اسی طرح جیسے اکیلے مڈی لیکر بلوچستان پہنچائے تھے اسی تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے بی ایل اے کے ہوتے ہوئے بی ایل ایف کا قیام بھی فرد واحد عمل میں لائے تھے اور پھر وہ اپنے ذاتی پیسوں سے(نوٹ یہ پیسے ذاتی کس حوالے سے ہوئے ہنوز معلوم نہیں ہو سکا ہے) بی ایل ایف کو محکم و مستحکم کرنے کے ساتھ انکی پرورش کرتے اور انہیں سب کچھ فراہم کرتے رہے۔ پھر ایک دن ایسا آیا جب بی ایل ایف نیند سے اٹھکر دماغی طور پر معذور لوگوں کی طرح حرکت کرنے لگا اور یہ کہنے لگا آپ کے اور آپ کے بھائی کے مسئلے میں ہمیں ثالثی اگر کرنی ہو تو غیر جانبدار طور پر کرینگے آپ کا من چاہا فیصلہ نہیں ہوسکتا تو بی ایل ایف کی نہ صرف حمایت بند کردی گئی بلکہ آج بی ایل ایف کا نام بھی کوئی لیتا۔
نواب مہران مری جسے سیاست میں زبردستی دھکیلنے والا بھی فرد واحد تھا، جس نے مہران کو یہ زمہ داری دی کہ بلوچ مسئلہ کو اقوام متحدہ میں اٹھاؤ اور مہران بھی اسی طرح کرتا گیا۔ پھر کیا ہونا تھا کہ عقل کل کو جیل ہوگئی اور مہران کرپشن میں اس طرح ڈوب گیا کہ وہ آج تک لوگوں کا قرض دار ہے۔ پھر نواب مری نے غیر سیاسی عمل کرکے مہران کے کرپشن کو سپورٹ کیا وہ الگ بات ہے کہ کرپشن کا معمہ آج تک جوں کا توں ہے کہ کیونکہ مہران بھی فرد واحد پر کرپشن کا الزام لگاتا ہے۔ اس کرپشن کے مسئلے کو لیکر ذاتی و خونی رشتوں کی جگہ سیاسی و سنگتی رشتوں کو اہمیت دیکر تنظیم کو دو لخت کرکے بعد میں ایک ایسی تنظیم کے ساتھیوں کو آپس میں لڑا کر شہید کروایا جو کبھی بلوچوں کے علاقائی و قبائلی مسئلوں کے فیصلے بھی کیا کرتے تھے۔ بات یہاں رکی نہیں مرحوم نواب مری کی اہلیہ کے وفات پر باقاعدہ اصول پرستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے بھائی اور بہن کو اخبار کا زینت بناکر دھمکی بھی دی گئی ۔ وہ الگ بات ہے کہ بیمار والدہ کی عیادت کرنے کی زحمت بلکل بھی نہیں کی تھی۔
سوشل میڈیا پر ایک ایسا ماحول بنانا جس سے یقینی طور پر سیاسی ماحول کافی گندگی کا شکار ہوا تھا اور بہت سے دوست اس حد تک اس غیر ضروری اور غیر سنجیدہ عمل سے بلوچ قومی مسائل کا حل ڈھونڈنے نکلے تھے کہ تنظیمی قیادت کو جان بوجھ کر عمل سے دور رکھ کر بےجاہ تنقید کی جانب گامزن کردیا گیا تھا۔ اور خود اپنے ہی فیک اکاونٹس سے تمام حالات کو دیکھ کر پھر اکثر و بیشتر یہی کہتا رہتا کہ اس عمل کو جاری رکھنا چاہیے میں خود بھی ان تمام چیزوں پر نظر رکھے ہوئے ہوں۔
چلیں جی سب بڑھکر رازداری اور اصول پرستی کا راگ الاپنے والے فرد واحد کے ذرہ حقیقی کردار کو یہاں جانچتے ہیں۔ جو شخص یہ کہتے نہیں تھکتا کہ شو بازی، سستی شہرت، سیلفی سرمچاری تحریک کیلئے نقصاندہ عمل ہیں تو اپنے افغانستان کے پکنکز اور ہتھیار بردار تصاویر شائع کرکے یہ دکھاوا کرنا کے تمام عمل کی شروعات میں نے کی تھی کیا بنیادی رازداری کیخلاف نہیں؟ کیا بی ایس او آزاد کے ایک ثابق چیرمین سے یہ بیان دلوانا کے میں اب مزاحمت کے زریعے اپنی جدوجہد آگے بڑا رہا ہوں اور دوست فرد واحد کا ساتھ دیں رازداری کی دھجیاں اڑانے کے مترادف نہیں؟ کیا تمام سیاسی و مزاحمتی تنظیموں کو ایرانی پراکسی قرار دیکر پھر نواب براہمدغ بگٹی سے قربت بڑھانا اصول پرستی کیخلاف نہیں؟
کیا جن مسائل کی بنیاد پر غلام محمد بلوچ ساتھیوں سمیت لاپتہ ہوکے شہید ہوئے اور پھر بھی اپنی جان بچانے اور ملک بدری سے بچنے کیلیے رحمان ملک سے ملاقات بلوچی اقدار کی خلاف ورزی نہیں؟
کیا خان قلات کے ہمراہ چار امریکی سینیٹرز سے قریب ہونے کی خاطر چارٹر میں سرداروں اور نوابوں کو خصوصی اہمیت دیکر اپنی ہی موقف کی خلاف ورزی نہیں؟
ایک دوست کے بقول جب ہم چارٹر کے دیوان میں تھے تو ایک سفید ریش بلوچ نے فرد واحد سے پوچھا کے کیوں آپ نے سرداروں کے حوالے شق میں بدلی لائی ہے تو جناب کا جواب بھی کافی مزاحیہ اور حیران کن تھا کہتے ہیں ہم سے تو ایک شفیق مینگل نہیں سنبھلتا ہمارے دوستوں کو ایک محبت خان مری پانی نہیں بھرنے دیتا تو ہم کیسے بلوچستان میں ان سرداروں کا مقابلہ کرسکیں گے۔ یقیناً اس وقت کے حالات کے مطابق ہم بھی یہی کہتے واقعی سنگت کیا بات کی ہے لیکن کیا شہید درویش کی قربانی کی کوئی اہمیت نہیں تھی جو اپنی ذاتی لالچ اور نمود نمائش حاصل کرنے کیلئے کچھ بھی کہہ دیا ۔
ہم ہمیشہ ہی سنتے اور کہتے آئے ہیں کہ تحریکوں میں کرداروں کی اہمیت ہوتی ہے اور کردار عمل سے بنتے ہیں اور عمل اپنی پہچان خود ہی بناتا تھا جیسا کہ آج بی ایل اے ہو براس ہو یا سب سے اہم بی ایل اے مجید بریگیڈ ہو یقیناً ان کرداروں نے جس طرح بلوچستان اور دنیا میں اپنا لوہا منوایا ہے جس سے چین سعودی اور پاکستان کافی پریشان ہیں ٹھیک اسی طرح ان کے پالے ہوئے وہ جاسوس بھی پریشان ہیں، جو کبھی اسرائیلی لیڈر بنتے ہیں، کبھی گرینڈ دادا بن جاتے ہیں، کبھی انکی کوسووو سے ہوتے ہوئے بلوچستان آمد ہوتی ہے تو کبھی وہ ہمیں رشین انقلاب کے صفحوں میں مل رہے ہوتے ہیں۔
بلوچ نوجوان نسل کو جھوٹ اور سچ میں تمیز کرنے کیلئے اتنا جاننا اور سمجھنا ہی کافی ہے کہ ایک طرف وہ سوچ ہے جو تنظیم اور تحریک کو زندہ رکھنے کی خاطر فنا ہورہے ہیں اور دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو گزشتہ بیس سالوں سے نہ صرف بلوچستان سے دور ہیں بلکہ وہ بلوچیت بلوچی روایات بلوچی فکر سے بھی کنارہ کش ہوکر سوشل میڈیا میں بیٹھ کر اپنی دوکان چلانے کی خاطر پروپیگنڈہ کرکے یہ سمجھ رہے ہیں وہ کچھ حاصل کرنے میں کامیاب ہونگے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔