جعفرِ دوٸم کا دودا خان سے رشتہ
تحریر: چاکر زہری
دی بلوچستان پوسٹ
کرہِ ارض کے ہفت اقلیم میں جب ہم کہیں بھی اور کسی بھی ٹکڑے پر قدم رکھتے ہیں یا اُس کا جاٸزہ لیتے ہیں تو وہاں کی آب و ہوا، رہن سہن اور وہاں کے لوگوں کی اشکال اسی طرح ان کے زبان اور قول دوسرے لوگوں سے جدا ملتے ہیں۔ یہ ایک فطری سلسلہ ہے جو پیداٸش ِ آدم سے لے کر دور ِ حاضر تک تواتر کے ساتھ جاری ہے۔
بلکل اسی طرح ہر جگہ کی مٹی کی بھی تاثیر الگ الگ ہے، کسی علاقے کے لوگ تند خو سخت مزاج تو دوسرے علاقے یا خطے کے لوگ خوش مزاج خوش روح ہوتے ہیں، اسی طرح ہر علاقے کے آب و خاک اور ہوا کی اس علاقے کے باشندوں پر مختلف طرح کے اثرات ہوتے ہیں ۔
ان ہی علاقوں میں سے ایک علاقہ زہری بھی ہے، حیقت میں اگردیکھا جاٸے تو زہری تاریخی اعتبار سے بہت قدیم ہے، چاہے وہ دور ِ اسلامی ہو یا دور ِ حاضر مگر زہری کا ذکر ضرور سننے کو ملے گا۔ ایک طرف جرٸت، بہادری اور دلاوری کی لازوال داستانیں، نوروز، سفر خان، بٹے خان اور دلجان کی صورت میں موجود ہیں تو دوسری طرف دودا خان، ثناءاللہ ، نعمت، زیب کی شکل میں آستین کے اژدہے ہمارے اندر موجود ہیں۔ گذشتہ دنوں محترم سیم زہری کا آرٹیکل پڑھنے کو ملا جس میں ایک نو آمدہ شخص کی گرفتاری اور پھر دشمنان ِ وطن کو حوالگی کا حال تھا جو میرے لیٸے حقیقتاً باعثِ افسوس تھا۔
کافی سوچ و بچار کے باوجود تفکرات میں گم اور ذہن میں ایک خلا ِبے کراں تھا، جو مجھے زیادہ سے زیادہ سوچنے پر مجبور کر رہا تھا۔
رات کے آدھے پہر تک میں ایک عجیب کیفیت میں مبتلا تھا اور مجھ سے میرے بکھرے ہوۓ خیالات اور افکار کو یکجا کرنا ناممکن ہوگیا تھا۔ نیند آنکھوں سے دور تو تھا ہی ساتھ ہی ساتھ میں اضطرابی کشمکش میں بہت بے سکون ہورہا تھا، کہ یہ کیا مسٸلہ ہے یہ کیا ہوریا ہے اور ہم کر کیا رہے ہیں، کیا ہمارے لیٸے کرنے کو بس یہی بچا ہے، کیا یہی ایک ہی راستہ ہے جو ہم نے چنا ہے اسی حالت میں مجھے اچانک مارِ آستین دودا خان یاد آیا اور اور اس کے بِکاو کی مکمل داستان۔
پھر سمجھ آیا کہ یہی وہ رشتہ ہے اور یہی وہ سیالی ہے جو دودا خان نبھا چُکے۔ یہ شرمناک کارنامے اسی کے ثمرات اور اثرات ہیں جو آٸندہ بھی رونما ہوتے رہینگے ۔ یہ انہی میں سے ہیں جو تاریخ کو پسِ پشت ڈال کر دو ٹکے کے دام بِکے اور اہلِ زہری پر نفاق ِ کوفہ کی سی تہمت لگا چکے۔
آج دہاٸیوں کے گذرنے کے باوجود بھی دودا خان اور اس کے حواری ریاستی کاسہ لیسی اور منافقت کی انجام دہی کے لیٸے ہمارے درمیان موجود ہیں جو اپنی ضمیروں تک کو بیچے ہوٸے ہیں
آخر میں میں کامریڈ سیم زہری کے آرٹیکل کے تناظر میں کچھ کہنا چاہوں گا جس کا عنوان تھا کہ ”اب یہ رعایت ختم ہونی چاہیٸے
“
میرے عزیز اب یہ رعایت ختم ہوچکی ہے کیونکہ اگر ہم راستے پر لگے ہوۓ کانٹے دار درخت کو شروع میں جڑ سے نہیں اکھاڑیں گے تو کل کو وہ ہر مسافر کے ایزا رسانی کا سبب بنے گا۔ اور جب بھی کوٸی مونچھ اپنے سر کو دوسرے مونچھوں سے زیادہ اٹھاتا ہے تو بلا کسی رعایت کے اس کو جڑ سے نکالا جاتا ہے یا اس کا سر کاٹ دیا جاتا ہے کیوںکہ یہ اس کا واحد حل ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔