ترمیم کی سرگزشت دیکھیں
تحریر: کے۔بی فراق
دی بلوچستان پوسٹ
اب کے ہم اِس گوادرکو اپنےلیئےموجودپارہے ہیں، جہاں زندگی کے آثار مفقود اور موت کے اشاریے موجود دکھائی دے رہے ہیں۔ جس میں آج کا ورق سادہ نہیں بلکہ پیچیدہ اور گھمبیر ہے۔ جس کو آپ اس نوجوان (نبیل ولد اللہ بخش سکنہ نیا آباد گوادر) کی شکل میں سی پیک کےاثرات کی صورت گلے میں پندھا ڈالے خود کشی کرتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ کیونکہ حالیہ دنوں میں خودکشی کے بڑھتے ہوئے رحجان سےکہیں اس احساس کو تقویت نہ ملے کہ اب کے تمام تر امکانی حوالے ختم ہوچکے، محض ایک موت ہی آخری نجات کا حوالہ ہے جو ہم آپ دیکھ رہے ہیں۔
بہت پہلے کی بات ہے جب میرا ایک دوست جوکہ ذہنی طور پر منتشر ہونےکی وجہ سے اپنےآپ کےاختیاری اورمرکزہ سےمعزوراور ذہنی تناؤ کا شکار دکھائی دیے۔ تو اس کی معمول میں شامل باتیں بھی کچھ عجیب سی محسوس ہونے لگیں تو میں نےان کے بڑےبھائی سے بات کی کہ ان کو ذرا دھیان دیا کریں اور اس کے انتشار خیالی پر مبنی خیالات چاہے آپ کے موافق نہ بھی ہوں لیکن ایسا تاثر نہ دیں کہ یہ سب دل میں لینےلگیں اس لیئے بہتر ہے کہ آپ اسے کسی نفسیاتی معالج کے پاس لے جائیں یا کونسلنگ کی صورت وضع کریں۔ سو کافی وقت گذرا لیکن وہ ٹھیک ہونے کے بجائےمعاملات کے بابت عجیب طرح سے رواں ہوئے ایک دن سُننے میں آیا کہ اس نے خود پر مٹی کا تیل چھڑک کر خود کو بھسم کر ڈالا اور اسی طرح یہ نوجوان اپنا کل دیکھے بِنا آج کی اذیت کوش آزار سے نجات پانےمیں عافیت تلاش کرکے ہمیشہ کے لیئے رخصت ہوئے۔ جب ہم قبرستان میں جنازہ دفنا کے واپس آرہے تھے، تو میں نے اس اثناء ساتھ ہی کھڑے گوادر کے ایک سماجی ادارے کے سربراہ سے کہا کہ جناب! پتہ ہے یہ چوتھا پانچوان واقعہ ہے، اس سلسلے میں سوچنا چاہیئے، کہیں یہ رواج نہ بن جائے اور لوگ اس میں اپنے سوالوں اور مسائل سے توجہ ہٹانے کی ایک طرح سے اسی صورت میں نجات تلاشنے لگیں تو ہمارے اس چھوٹے سے شہر میں یہی کچھ روز کا معمول تصور کیا جانے لگے گا۔ جوں جوں مسائل میں گھمبیرتا دکھائی دے گی اور نفسیاتی مسائل کی صورت پیچیدہ تر ہوگی۔
لیکن انہوں نے اس بابت کچھ خاص تاثر کا اظہار نہیں کیا بلکہ چہرہ بھی سپاٹ اور تاثر سے عاری دکھائی دیا، جیسے وہ یہی سمجھ رہے تھے کہ یہ سب ہم سے کیونکر ہونا ممکن ہے؟ البتہ ایک سوشل سائنٹسٹ ہونے کی بنیاد پر بڑی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اس سلسلے میں لوگوں میں جا کے ان کے حوالے سے بات کرنے کی صورت وضع کی جائے تاکہ مکالمے کی صورت مسائل کی تشخیص کرنے میں آسانی ہو اور اس کے متعلقات کی بابت طریقہء کار وضع کیا جا سکے۔
جبکہ حالیہ دنوں میں ان کو دیکھ کر اپنی اس وقت کہی ہوئی بات کی طرف دھیان گیا کہ ہمارے ہاں لوگ کس طرح دوسرے کو دوسرا سمجھ کر اغماض برتنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حالانکہ ان کی موجودگی ہماری معاشرت کا حُسن ہے اوران کے اندر موجود تخلیقی امکانات کو بروئے کار لانا ہی ایک برتر قیادت کا فریضہ ہونا چاہیئے۔ تاکہ اس طرح نوجوانوں میں موجود اس طرح کے مسائل کو کسی حد تک درست سمت دینے میں اپنا کردار ادا کریں۔ کیونکہ جو لوگ ان خرابیوں کے ذمہ دار ہیں، ان پر بھی گرفت کرنا اہم ٹہرتا ہے، نہ کہ اپنے آپ کو ہلکان کیئے رکھنا۔
سو آج کے گوادر میں ہم خودکشیاں، منشیات کی لت میں مبتلا تباہ حال آج، نفسیاتی مسائل سے دوچار، آبائی معاشی عمل سےراندہ درگاہ،عصرِ حاضر کے تقاضوں کے ساتھ پچھڑا پن، سلمز بننے کے آثار، براتھل کے پھیلتے ٹنٹیکلز جو آکاس بیل کی طرح زندگی کی قدرت کو نچوڑ رہے ہیں اور اوپر سے مسلط کردہ ترقی کی مکر چاندنی، جس میں روشنی کا برتر حوالہ مقامی لوگوں کے لیے محض پرائے ڈھول سہانے کے موافق دکھائی دے رہے ہیں۔ البتہ اس بیچ بہت سے نو دولتیے اور موقع پرست کردار کو سرشاری میں تھرکتے ہوئے دیکھ رہا ہوں کہ یہ کردار زمان ومکان سے عاری جہاں کہیں بھی دیکھےجاسکتے ہیں چہ جائیکہ گوادر کی آدھی ادھوری خوشیاں لیئے ایک دوسرے کا منہ تک رہے ہیں۔
جب میرے ایک عزیز اپنے والد کی عجیب و غریب حرکتوں اور شیزوفرینک صورتحال سے پریشان ہوئے اور یہ دیکھا کہ ان کی ذہنی حالت کچھ ٹھیک نہیں رہی۔ اور روزبروز ذہنی پریشانیوں کی وجہ سے گھر میں ان کا برتاؤ گھر والوں کے ساتھ بھی اچھےنہیں رہے تو ان کے بیٹے نے سوچا کہ کیوں نہ انھیں کسی نفیسیاتی معالج کے پاس لے جائیں، تو پھر وہ اپنے والد کو ناظم آباد ( نفسیاتی ہسپتال کا نام اس وقت یاد نہیں آ ریا ہے ) لے کرگئے اور وہاں موجود ڈاکٹر کو دکھایا اور انھوں نے دوائیں لکھ کر دی البتہ مریض والد کے بیٹے کے ذہن میں یہ بات آئی کہ کیوں نہ اس ہسپتال میں موجود ریکارڈ کیپر سے معلوم کیا جائے کہ اس ہسپتال میں زیادہ تر کون لوگ آتے ہیں اور وہ کس قوم سے ہیں۔ تو اس نے فرمایا کہ ہمارے ہاں بیشتر نفسیاتی مسائل سے دوچار مریض بلوچ ہی ہوتے ہیں اور ہمارے ہاں ان کو نفسیاتی طور علاج کرنے کے لیے دستیاب وسائل بروئے کار لائے جاتے ہیں ۔ یہ سب سُن کر میرا عزیز کچھ حیرت زدہ ہوئے کہ اس ریاست نے ہماری حالت اس حد تک تباہ حال کردی کہ بڑھاپا تو ویسے بھی اذیت کوش ہے اب کے جوانی بھی انہی آزار کی صورت زندگی سے عاری ہے۔ جس کی بنیاد پر کیونکر زندگی کا رُخِ روشن دکھائی دے گا۔البتہ اس بابت قیادت پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ان مسائل (سماجی، سیاسی، معاشی اور نفسیاتی وغیرہم) سے لوگوں کو کس طرح نکالیں اور برتر زندگی کا اعتماد و ارتباط ان کے اندر پیدا کریں۔ جبکہ اس وقت دور نزدیک ایسی کوئی پارٹی نہیں کہ اس سلسلے میں کوئی صورت وضع کرے۔ اور قیادت کا عمل ویسے بھی ایک بھاری پتھر کے موافق ہے جس کا اٹھایا جانا ہَما شُما کا کام نہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔