بی ایل اے دہشت گرد یا مفادات کی جنگ – جیئند بلوچ

370

بی ایل اے دہشت گرد یا مفادات کی جنگ

تحریر: جیئند بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بی ایل اے پر دہشت گردی کا امریکی الزام گوکہ معمولی واقعہ نہیں مگر یہ کوئی اتنا بڑا مسئلہ بھی نہیں جس پر سب کام دھندے چھوڑ کر سر پیٹا جائے اور برے وقت کے انتظار میں اچھائی کی تمام امیدیں ختم کی جائیں۔

امریکہ ہو یا دنیا کا کوئی بڑا یا چھوٹا ملک ہر کسی کی فارن پالیسیاں ذاتی مفادات کے تابع ہوا کرتی ہیں۔ یہ انسانی حقوق، یہ عالمی قوانین، یہ ظلم و زیادتیوں پہ واویلا محض ہاتھی کے دکھاوے والی دانت ہیں، ان کا حقیقت سے دور کا واسطہ نہیں ورنہ دنیا میں سب سے زیادہ انسانی حقوق کی پامالیاں امریکہ اور اسرائیل کررہی ہیں اور کس میں اتنی ہمت، یا صرف گذشتہ دو دہائیوں میں پاکستان نے بلوچستان پر جبر اور تشدد کا بازار گرم کرکے انسانی حقوق کی جتنی دجھیاں بکھیر دیں امریکہ نے اس پر لب کشائی کے بجائے بلوچستان کی دفاعی تنظیم اور قومی جدوجہد میں برسر پیکار بی ایل اے پر دہشت گردی کا بے سروپا الزام لگا دیا ظاہر کرتی ہے کہ کون اپنے مفادات کی جنگ کہاں تک اور کیسے لڑتی ہے۔

ہمارے نزدیک امریکہ یا اقوام متحدہ کو پاکستان کی بلو چستان پر ننگی بربریت کا کب سے نوٹس لینا چاہیئے تھا مگر بات وہی اپنے مفادات کی ہے یہاں ان کے مفادات شامل نہیں تھے، انہوں نے خاموشی کا مجرمانہ معمول اپنایا حتیٰ کہ بی ایل اے کو دہشت گرد قرار دیا۔

سمجھنے کا نکتہ یا اصل مسئلہ یہ ہے کہ شکست خوردہ امریکہ کو افغانستان سے محفوظ نکلنے کا اچھا راستہ چاہیئے جس کے لیئے پاکستان سے بہتر دلال اس کی نظر میں کوئی نہیں، سو پاکستان سے اپنی عزت بچانے کی خاطر دلالی کا کام لے کر بدلے میں اس دلال سے بی ایل اے پر دہشت گرد ہونے کا الزام کون سا بڑا سودا ہے، جس پر افغانستان میں سر تا پا ڈوبا ہوا امریکہ سوچ بچار کرے، سو پلک جھپکتے ہی اس دلالی کے عوض امریکہ نے بی ایل اے کو پاکستان کے ایماء پر دہشت گرد قرار دے کر اپنا مفاد محفوظ رکھا۔

اب سوال یہ ہے کہ اس کے بعد کیا ہوگا، کیا بی ایل اے کی عسکری قوت ختم یا کم ہوگی، اس کی سرگرمیوں پر اثر پڑے گا یا بیرون دنیا جتنے اشخاص جنہوں نے بی ایل اے کے نام پر پناہ لی ہے ان کے گرد گھیرا تنگ ہوگا، تو اس کا واضح جواب نفی میں ہے بلکہ ایسا ہونا ذرہ برابر ممکن نہیں کیوںکہ نا امریکہ میں بی ایل اے کے اکاؤنٹ کھلے ہیں، نا وہاں پر سہولت کار جو دھڑادھڑ بی ایل اے کو وہاں سے فنڈنگ کررہے تھے، اب نہیں کرینگے، یوں بی ایل اے کمزور ہوگی اور اس کی کاروا ئیاں رک جائیں گی۔

حقیقت یہ ہے کہ بی ایل اے امریکہ سے بہت دور بلوچستان میں ایک زیر زمین عسکری تنظیم ہے، جس کی فنڈنگ سے لے کر افرادی قوت تک کا کوئی حساب کتاب امریکہ یا دنیا کے کسی ملک کے پاس نہیں جس پر گرفت ممکن ہوسکے۔

البتہ گئے وقتوں میں پاکستان امریکہ پر اگر بی ایل اے کو سپورٹ کرنے یا کسی طرح کی امداد کا الزام لگاتا رہا ہے تو یہ اس کا اپنا مسئلہ ہے اور شاید امریکہ کے نئے فیصلے کے بعد پاکستان کی خوشی کا ایک سبب یہ بھی ہے لیکن خود امریکہ سے زیادہ اور کون سمجھ سکتا ہے کہ اس نے کس قدر بی ایل اے یا بلوچ قومی تحریک کو سپورٹ کیا۔ لہٰذا یہ بہت ہی معمولی واقعہ ہے جس کا کوئی برا اثر نہیں پڑنے والا۔

اس امریکی فیصلے کا واضح مقصد صرف اور صرف پاکستان کو خوش رکھنا اور افغانستان میں طالبان سے ہاری ہوئی لڑائی میں باعزت راستے کی تلاش میں مدد مانگنا ہے، جسے پاکستان پہلے ہی امریکہ طالبان مذاکرات کی صورت میں مدد کرہا تھا اس فیصلے کے بعد ہوسکتا ہے اب زیادہ دلجمعی سے کرے گا۔

ایک اور صورت یہ ہے کہ امریکہ کی خواہش ہے کہ پاکستان چائینا کے بجائے اس کا دم پکڑے رکھے، جو ایک دہائی سے پاکستان چھوڑ چکا تھا اور امریکہ کے بجائے چائینا کے زیادہ قریب تھا، سی پیک منصوبہ ان دونوں کے درمیان ایک بہت بڑا تجارتی پیش رفت ہے، جس پر امریکہ کو اعتراض سے زیادہ تشویش ہے۔ حالیہ بی ایل اے کو اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے دہشت گرد قرار دینا، آئی ایم ایف کی طرف سے 6 ارب ڈالر قرض کا اعلان بظاہر احساس دلا رہےہیں کہ ایک بار پھر پاکستان اور امریکہ کے درمیان پرانے تعلقات معمول پر آنے والے ہیں۔

اگر پاکستان نے ایک بار پھر امریکہ سے دوستی کر کے نیا سفر شروع کرنے کی کوشش کی ہے تو لازماً یہ عمل چائینا کو کسی صورت قبول نہ ہوگا، اس کا ردِعمل کیا نکلے گا بلوچ قیادت کو بی ایل اے پر امریکی دہشت گردی کے معمولی الزام سے زیادہ اسی نکتے پر سنجیدہ غور وفکر اور اپنے لیئے نئے راستے تلاشنے کی ضرورت زیادہ ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔