بی ایل اے دہشتگرد یا ابھرتی قوت؟
تحریر: برزکوہی
دی بلوچستان پوسٹ
گذشتہ دنوں امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے مقبوضہ بلوچستان پر پاکستانی قبضے کے خلاف اور بلوچ قومی آزادی کے لیئے برسرپیکار مسلح جدوجہد کرنے والی عوامی و قومی نمائندہ تنظیم بی ایل اے کو دہشتگرد تنظیم قرار دیا گیا۔
جس وقت امریکن کانگریس میں بلوچستان کے حوالے سے قرادار کی بات ہوئی، تو سب خوشی سے بغلیں بجا رہے تھے، میرا اس وقت بھی ذاتی رائے یہی تھا کہ یہ کوئی بڑی بات اور کامیابی نہیں ہے اور اب بھی میں کہتا ہوں یہ فیصلہ بلوچ، بلوچستان اور بی ایل اے کے لیئے کوئی حیران کن یا نقصان کن یا خطرناک بات نہیں ہے۔
کچھ حلقوں کی جانب سے دانستہ طور پر یہ تشویش پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ دہشتگرد تنظیموں کے لسٹ میں بی ایل اے کے نام کے اندراج کا مطلب نقصان ہے، ایسا ہرگز نہیں بلکہ اسکے الٹ دلائل دیئے جاسکتے ہیں، لیکن یہاں اس بات پر سب سے پہلے غور ضروری ہے کہ ایسے کسی بھی لسٹ میں شامل ہونے سے بی ایل اے کے سیاسی مقاصد یا حربی صلاحتیں کسی طور متاثر نہیں ہونگے۔ یہ محض ڈپلومیٹک سطح کی لین دین ہیں۔ جیسا کہ یاد رہے 2006 میں ہیتھرو ایئرپورٹ پر دہشتگرد کاورائی کی منصوبہ بندی کرنے والی پاکستانی نژاد القاعدہ کے دہشتگرد راشد رؤف کے بدلے پاکستان نے برطانوی حکومت سے بی ایل اے کو دہشتگرد تنظیم قرار دینے کی شرط رکھی تھی۔ اور اسی بنا پر برطانیہ نے بی ایل اے کا نام دہشتگرد تنظیموں کے لسٹ میں شامل کیا تھا اور یہ وہ وقت تھا جب بی ایل اے نے کوئی فدائی حملہ کیا تھا اور نا ہی کسی ایمبیسی یا فائیو اسٹار ہوٹل پر حملہ کیا تھا۔ لہٰذا آج جو لوگ تشویش پھیلانے کیلئے یہ باتیں کررہے ہیں، یا وہ عالمی حالات و سیاست کے ابجد تک سے ناواقف ہیں یا پھر وہ اس بات پر تلے ہوئے ہیں کہ کسی بھی طرح انکے کچھ بھی نا کرنے کو کمال قرار دیا جائے اور جو جہد کار ہاتھ پیر مار رہےہیں سب بیوقوف ہیں۔
جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ اس لسٹ میں بی ایل اے کا نام شامل ہوجانے کے بعد شاید اب امریکہ بی ایل اے کا دشمن بن گیا تو انکو ذرا دوسرے زاویوں پر غور کرنا چاہیئے۔ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ امریکہ اب مشرق وسطیٰ میں اپنے اتحادیوں کے ہمراہ ایران کیخلاف صف بندی کررہا ہے اور جیش العدل جیسے گروپ جو ایران کے خلاف لڑرہے ہیں، انہیں امریکہ اور سعودی عرب کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ لیکن امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے دہشتگرد تنظیموں کے لسٹ میں جیش العدل کا نام بھی ڈال دیا ہے۔ مقصدِ عرض یہی ہے کہ امریکہ بہادر کو اپنا کام کرنے دیں، انکے سیاست اپنے رنگ ہیں، آپ ہاتھ پیر ماریں اپنا کام کریں۔ حقیقت یہ ہے کہ بی ایل اے کو دہشتگرد تنظیم قراردیئے جانے کے پیچھے وجہ یہ ہے کہ اب بی ایل اے ایک ایسی ابھرتی قوت ہے جس کے بارے میں خاموش پالیسی رکھا نہیں جاسکتا۔
یہ وہی دنیا اور امریکہ ہے جو نیلسن منڈیلا کو دہشت گرد قرار دینے کے بعد پھر نوبل انعام دیتے ہیں اور جنوبی افریقہ کا صدر بھی تسلیم کرتے ہیں۔ کردوں کے تنظیموں کو دہشتگرد قرار دیکر بعد میں انکے اتحادی بن کر دولت اسلامیہ سے لڑتے بھی ہیں۔ طالبان کی تخلیق کرکے پھر اسے دہشت گرد قرار دیتے ہیں اس سے لڑتے ہیں، پھر اٹھارہ سال لڑنے کے بعد ایک میز پر بیٹھتے بھی ہیں۔ آپ کے قسمت کا فیصلہ، آپکے مستقبل کا تعین آپکی محنت، آپکی قربانی، آپکی طاقت اور آپکا جہد مسلسل ہوگا۔ ڈرائینگ روم پالیٹکس سے نا آپ کسی قرارداد سے آزاد ہونگے، نا کسی لسٹ میں نام آنے پر برباد ہونگے۔
البتہ تحریک جس موڑ پر ہے، ہم کہاں پر کھڑے ہیں، کن کن مسائل اور مشکلات کا شکار ہیں، ان کا ذکر میں بار بار ان الفاظ میں کر چکا ہوں کہ بلوچ قوم انتہائی مشکل، تکلیف دہ اور خطرناک مقام پر کھڑا ہے۔ بلوچ قوم اس وقت فنا و بربادی پر پہنچ جائیگی جب بلوچ اپنی قومی جنگ اور قومی قوت کی تشکیل میں سنجیدہ نہ ہو اور عدم توجہ اور عدم دلچسپی کا شکار ہو۔
لازماً یہ مسائل اور مشکلات موجود ہیں، موجود رہینگے اور آئیندہ اور بھی زیادہ ہونگے، تمام تر جہد آزادی کے حصے ہیں۔ اگر بحیثیت تحریک، بحثیت قوم، بحثیت بی ایل اے، جب ہم حملہ آوروں کے خلاف کچھ کرینگے، قدم اٹھائینگے تو ردعمل میں مشکلات، مسائل اور تکالیف کا ہمیں سامنا ہوگا۔ اگر خاموش ہونگے، معمولی سطح پر مزاحمت کر بھی لیں، وقت پاسی کریں تو پھر بحثیت جہدکار ہمیں کچھ نہیں ہوگا لیکن بحثیت قوم ہم فنا ہونگے۔
عجیب و غریب لغو قسم کی منطق اور راہ فراریت ہے کہ جی دنیا جنگ نہیں چاہتا، دنیا پاکستان کو توڑنا نہیں چاہتا، دنیا بلوچ قوم کو سپورٹ نہیں کرتا، بالکل میں تسلیم کرتا ہوں کہ کوئی بھی گوریلا جنگ بغیر کسی قوم و ملک اور طاقت کے کامیابی حاصل نہیں کرتا، پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کوئی قوم، ملک اور طاقت کب کہاں اور کس وقت آپ کو سپورٹ کریگا ؟ آپ دن رات آرام کریں، سوتے رہیں اور دنیا آپ کو کمک کریگا، پھر دنیا بے وقوف ہے یا آپ احمق ہونگے۔
کیا اس وقت ہم نے آزادی کی جہدوجہد شروع کی اس سوچ کے تحت کی کہ امریکہ ہمیں آزادی دلوا دیگا، اگر نہیں دیا تو پھر ہم خاموش ہونگے، انتظار کرینگے جب تک امریکہ ایران پر حملہ نہیں کرتا، ہم انتظار کرینگے۔ کیا وہ بلوچ، وہ دوست جو ہزاروں کی تعداد میں شہید ہوئے، لاپتہ ہیں، یہ خود ان کی لہو اور قربانی کے ساتھ غداری نہیں ہے۔ پھر وہ کیوں قربان ہوئے وہ بھی انتظار کرتے، گیدڑ کی طرح کہ کب گائے گر جائے۔
اس وقت تو سوچ، نظریہ و فکر یہی تھا کہ قومی آزادی کی جنگ میں قربانی، درپدری، مخلصی، شعور و جذبہ، سچائی، ایمانداری، بہادری اور مستقبل مزاجی کی ضرورت ہے۔ اب تو خوشحال زندگی ہو، آرام و آسودگی ہو، آسائش و سہولت ہو، مشکلات و تکالیف نہ ہوں دیگر نوجوان اور قوم سمیت ہم بھی قربان نہ ہوں۔ اسی حالت میں دنیا ہمیں کمک کرے اور ہم آزاد ہوں۔ میرے خیال میں اس سوچ، اس خیال، اس تصور سے آزادی اپنی جگہ بیکری سے کوئی کیک بھی نہیں ملیگا۔
یہ صرف اور صرف شکست، ناکامی، مایوسی، فکری کمزوری، خوف اور خاموش راہ فراریت کے علاوہ اور کچھ نہیں، چاہے کوئی ان رویوں اور سوچ کو لاکھ خوبصورت لبادے میں اوڑھ لے مگر تلخ سچائی یہی ہے۔ کیونکہ قومی آزادی کی جنگ مسلسل جدوجہد، تسلسل کے ساتھ قربانی اور اذیت کا نام ہے اور مستقل مزاجی کے بغیر ممکن نہیں ہے اور ہر وقت بڑے سے بڑے مشکلات اور چیلنجز کو قبول کرنا نہ کہ شکار ہونا قومی آزادی کے لیئے خود راہ ہموار کرتی ہے۔
کوئی مانے ی نہ مانے، اصل چیز طاقت ہے، طاقت کے بغیر آپ جتنا بھی قانون، آئین، مذہب، شرافت، انسانی حقوق کا چیمپین بنیں، کوئی آپ کو گھاس بھی نہیں ڈالے گا۔ قومی طاقت کا سرچشمہ، جدوجہد اور مسلسل جدوجہد اور قربانی دینے پر منحصر ہے، صرف انتظار اور صرف بیٹھنے سے طاقت حاصل کرنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔
جب قومی فکر و قومی شعور اور احساس کے بنیاد پر قومی جہد ہوگا، قومی جنگ ہوگا، تحریک فعال و متحرک ہوگا، آپ کے لوگ آپ کی عوام آپ کے ساتھ ہونگے، آپ کے حصہ ہونگے، وہی پھر آپ کی اصل قوت اور اصل طاقت ہوگی، پھر طاقت و قوت کو صحیح معنوں میں، صحیح اور جامع پالیسی کے ساتھ آگے بڑھانا، خود آپ کی کمک و مدد ثابت ہوگی۔
اگر آپ اس انتظار میں ہیں کہ اس وقت حالات جنگ و تحریک کے حق میں نہیں ہیں، کسی غیبی قوت کے مدد کا انتظار کرنا چاہیئے اور تب تک جو جہد کار کوئی بھی کام کرے آپکا کام انکے عظیم قربانیوں میں کیڑے نکالنا ہے تو پھر آپ بلاشک گرمیوں کے ان لمبے دنوں میں بوریت دور کرنے کیلئے ایسا کرتے رہیں لیکن “ناچ نا جانے آنگن ٹیڑھا” کے مصداق جناب آنگن ٹیڑھا نہیں ہے آپ کے ناچ میں گڑبڑ ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔