بیٹا گاؤں نا آنا
تحریر: گورگین بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
رامین کے دل میں بہت دی خواہشیں تھی، گھر جاؤں پہاڑوں کی دامن میں کھیل لوں، چشموں سے بہنے والی پانی کو دیکھ لوں خوبصورت باغات میں لدے آموں ،لیموں ،انگوروں کا سیر کروں اور خوب لطف اندوز ہو جاؤں، پہاڑی کی دامن میں واقع چھوٹی سی باغ جہاں ناکو دلمراد کی دمبورگ کی آواز اور پنچھیوں کی بے تحاشا واہ واہ سن لوں، شام کو نئے کپڑوں کو پرانے پھٹے کپڑوں کی طرح بنا کر گھر لوٹ لوں۔
ان لمحوں میں رامین نے کبھی بڑے ہونے کا ذمہ داری کا سوچا نہیں نا کچھ محسوس کیا تھا کہ ہم بھی بڑے ہونگے بال داڑھی سفید ہونگے خیر اب آئینے میں دیکھا داڑھی اور بال سفید ہوگئے ہیں، ان کو مزید دیکھنے کے لیے چشمہ لگانا پڑا۔
کبھی کبھی انسان بڑا ہونے کے ساتھ ساتھ خود کو بچہ سمجھ لیتا ہے بچپن کی یاد آتی ہے، اسی طرح یادوں میں اچھل کود شروع کردیتا ہے یا انسان کو یہ لمحے اتنے گران گذزتے ہیں زبان سے بول دیتا ہے ”او ڈے وھد”
رامین کو 10 سال کا عرصہ گذرا تھا کبھی گاؤں جانا نصیب نا ہوا تھا بلآخر چاکر نے خوشخبری سنا دی لوپ فون کام کر رہے ہیں، جلدی گھر فون کرو سگنل کا بھروسہ نہیں جلدی جلدی موبائل نکالا فون ڈائل کیا، فون سے ہیلو کی آواز آئی۔
ہیلو جی میں آپکی دادی بول رہی ہوں کیا حال ہے بیٹا آپ میرے رامین بول رہے ہیں، جی دادی ۔
دادی کی آواز میں بہت خوشی تھی بیٹا ہم ٹھیک ہیں، بہن بھائی تمہارا بابا بابا ہچکچاہٹ میں امی سب ٹھیک ہیں آپ فکر نا کریں۔
دادی جان میں نے ارادہ کیا ہے کل والی بس سے میں گاؤں آؤں آپ لوگوں کی یاد بہت آتی ہے ابھی چاکر نے بتایا کل ملا نازبو کا کوسٹر نکل رہا ہے، میں آؤں گا۔
دادی نے خوف زدہ ڈانٹ سے نہیں بیٹا نہیں یہاں نا آنا، نا آنے کی کوشش کرنا جیسے کوئی طوفانی آتش نے سب ختم کر دیا ہو ( جب بچپن میں کوئی غلطی کرتے دادی کا رویہ اس طرح نا ہوتا یہ اچانک کیا ہوا) اسی کے ساتھ فون بند ہوا پھر لاکھ کوشش کے بعد فون نا لگا ذہن میں ہزاروں الجھنوں کے ساتھ رامین رات بھر سو نا سکا، چاکر بار بار اٹھ کر سونے کی تلقین کرتا مگر رامین یہاں اپنی موجودگی سے بے خبر تھا اچانک فون کال کی آواز آئی رامین نے جلدی جلدی اٹھ کر فون اٹھا لیا ہیلو جی میں رامین۔
پاپا آپ کی آواز کو کیا ہوا ہے بیٹا زکام ہے آپ کیسے ہیں دوسری طرف آواز آئی بیٹا آپکی دادی کی آنکھیں خراب ہیں میں انہیں پرسوں کی بس سے کراچی بھیج رہا ہوں، آپ ڈاکٹر کو دکھائیں آپریشن کرائیں یہاں سگنل کبھی کبھی کام کرتے ہیں، ہوسکتا فون بند ہو کل بس نہیں ہے، ویسے کل بھیج دیتا رامین نے آبدیدہ آواز میں کہا پاپا گھر میں سب ٹیھک ہیں نا جی بیٹا یہاں سب ٹھیک ہیں دادی نے آپ کو آنے کے لیے اس لیے منع کیا تھا یہاں کے حالات ٹھیک نہیں آپ اخبار نہیں پڑھتے کیا۔
رامین کے ابو اپنے گاؤں کےہسپتال کے میڈیکل آفیسر ہیں وہ ہمیشہ اخبار کراچی سے منگواتا، انور ساجدی، نرگس بلوچ، وسعت اللہ خان کی بات سے بات ہمیشہ پڑھ لیتا
پڑھائی اور سوشل کاموں کی وجہ سے رامین اخباروں کی دنیا سے دور تھا اچانک فون کال بند ہوا، رامین بیٹھے سوچ رہا تھا وہاں کیا ہو رہا ہے، مجھے کیوں علم نہیں میں کس دنیا میں ہوں یہ دیہاتی زندگی سے بدتر ہے وہاں خبر سننے کے لیے بی بی سی تھا، یہاں مختلف چیلنز، ابھی تک وہاں فون کام نہیں کررہے، وہاں کیا ہورہا اسی سوچ میں رامین کی آنکھیں لگ گئیں۔
صبح پانچ بجے اٹھا چاکر کو چاکو چاکو بول کے اٹھا لیا اٹھو ابھی تک سو رہے ہو۔
چاکر یار پوری رات تمہاری خراٹوں نے سونے کہاں دیا رامین نے جمائی لیتے ہوئے کہا بات سنو کل دادی آرہی ہے، آپ ڈاکٹر سے ابھی کل کا وقت لیں دادی آپ جانتے کتنا غصہ ہوگا اگر ہم پہلے سے بندوبست نا کریں، میں گھر کی صفائی کرونگا آپ جائیں آنکھوں کے ہسپتال۔
رامین خوشی خوشی گھر کی صفائی میں مصروف رہا اچانک اسے یاد آیا آج مجھے سول ہسپتال جانا تھا وہاں کسی کو خون دینا تھا، فورا موبائل فون اٹھایا وہاں سے آواز آئی وہ کینسر کا مریض تھا رات کو دنیا سے رحلت کر گیا ہے، رامین سیڑھیوں پر بیٹھ کر یہی سوچنے لگا ان تین سالوں میں میرے علاقے کے 100 سے زائد بندے کینسر سے فوت ہوئے ہیں حکومت کی عدم توجگی بلوچستان میں کینسر ہسپتال نا ہونا یہاں کے ہسپتالوں کا نظام اسکے سامنے تھا، مالا مال سرزمین کے مالک اتنے بیدردی سے مر رہے ہیں، کہاں ہے میڈیا کہاں ہے حکومت گوادر سے میسج آیا ایک عورت ڈلیوری کے دوران ماہر ڈاکٹر نا ہونے کی وجہ سے فوت ہوا ہے جلدی جلدی سے سی پیک وٹس ایپ گروپ میں یہ میسج فاروڈ کرنے لگا وہاں سے کوئی ریسپونس نا ملا غصے سے گروپ سےلفٹ ہوا۔
اب سوچنے لگا۔
“کتابیں محض آپکی رہنمائی کرتے ہیں باقی آپکی سوچ فکر تک محدود ہے آپ کتنا عمل کریں گے، دماغ کو زنگ دو وجوہات کی وجہ سے لگتا ہے ایک زہنی ٹارچرسے دوسرا سوچ فکر سے گریز کرنے سے”
رامین کو اب حالات نے سوچنےپر مجبور کردیا رامین اب گاؤں کی غریب مفلس عوام کے بارے میں سوچتا رہا کبھی کچھ ذہن میں آتا، چلا جاتا کل دادی کا آنا تھا آج رات جلدی سونا تھا مگر رامین نے کتاب تعلیم اور مظلوم عوام کا مطالعہ شروع کیا اچانک دروازے پر دستک ہوئی سامنے دیدگ اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ کھڑا تھا ہان دیدگ خیر ہے آپ اس وقت
دیدگ نے فرفر بولنا شروع کیا حمل لاسٹ سسمٹر کا اسٹوڈنٹ ہے جسے آج نوٹس بیجھا گیا ہے اگر کل تک فیس جمع نہیں کیا کالج سے نکالا جائے گا۔
رامین کیسے نکالا جائے گا کتنا فیس ہے؟ دیدگ نے کہا 50000 پچاس ہزار ہم اب تک 500 جمع کر چکے ہیں ہم نے فیس بک ٹوئٹر سمیت سب جگہ مدد کی اپیل کی ہے مگر کچھ نا ملا ہے اب تک۔
رامین حمل کو جانتا تھا، اسے کئی بار لائبریری میں خاموشی سے پڑھتے دیکھا تھا اتنا جانتا ہے بلوچستان میں کچھ نامعلوم افراد نے اس کے ابو کو مارا تھا پوری کہانی سے ناواقف تھا
رامین ان دوستوں کے ساتھ چلتا بنا، کبھی اس دوکان کبھی وہ کبھی ایک ہاسٹل کبھی گھر، بامشکل صبح 5 بجے 40000 جمع کر پائے 10000 باقی تھا چاکر نے اپنا موبائِل فون بیچ کر باقی پیسے پورے کیئے۔
رامین نا سونے کی وجہ سے مدہوش تھا، کمرے میں پہنچتے ہی نیند کی آغوش میں چلا گیا شام سات بجے دادی کو لینے جانا تھا، مگر تھکاوٹ اور بے چینی سے اٹھ نا سکا چاکر کو نیند کی حالات میں کہا شاہین ٹرانسپورٹ جاؤ دادی کو لینے ۔
بس کی پہچنتے ہی چاکر پہنچ گیا دادی سے سلام دعا کے بعدرکشے میں بیٹھا کر روانہ ہوا بیٹا آپکو پتا ہے میں 30 سال بعد کراچی آئی ہوں پہلے یہاں جنگل کے علاوہ کچھ نا تھا اب بہت کچھ تبدیل ہے اتنے گاڑیاں نہیں تھیں، بیٹا دنیا ترقی کر چکا ہے ہمارا گاؤں اب تک لالٹین سے روشن ہے۔
رامین کو ہمسائیوں کے گھر سے ٹی وی کی آواز زور سے آرہی تھی، آج سے دو سال قبل حمید آباد کے ڈاکٹر کو نامعلوم افراد نے شہید کیا تھا، اسکی برسی کے حوالے سے وہاں سے رپورٹ تھی رامین بستر سے اٹھ کھڑا ہوا۔ اسی اثناء میں دادی گھر آگئی۔
ارے میرے شیر کا بچہ بالکل اپنے پاپا جیسا ہے، میرے لخت جگر کا بالکل چہرہ ہے، میری آنکھیں رو رو کے روشنائی سے محروم ہوئے۔
دادی پاپا کو کس نے مارا کیوں مارا؟ پتا نہیں بیٹا کس نے میرے جگر کے ٹکڑے کو مارا، نہیں پتا، آپ وہاں نا آئیں آپکی امی بہن بھائی کل سب یہاں آرہے ہیں، آپ نا جانا وہاں بہت سارے انجان لوگ آئے ہیں، کبھی اٹھاتے ہیں کبھی زندہ مارتے ہیں،
بیٹا میں نے اپنی 85 سالہ عمر میں یہ نہیں دیکھا تھا نا اب دلمراد رہا نا ناگمان رہا نا تیرے پاپا نا تیرا استاد کوئی نہیں پہاڑوں میں چشموں کی پانی میں اب کچھ نا رہا بیٹا۔
رامین نے دادی کو تسلی دیا، بیٹا آپ حمید آباد نا جا اب وہاں کوئی نہیں۔رامین نے سر ہلا کے جی جی کرتا رہا
اسی وقت میں اس ماتم زدہ ماحول سے رفو چکر ہوا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔