دی بلوچستان پوسٹ نیوز ڈیسک کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق بولان میں پاکستانی فورسز کی جانب سے دوسرے روز بھی فوجی آپریشن کی جارہی ہے۔
فورسز نے آج صبح سانگان، لاکی، اور جالڑی میں فوجی آپریشن کا آغاز کیا ہے۔
علاقائی ذرائع نے ٹی بی پی کو بتایا کہ فورسز کی بڑی تعداد مذکورہ علاقوں میں داخل ہوچکی ہے جبکہ انہیں گن شپ ہیلی کاپٹروں کی کمک حاصل ہے تاہم دوران آپریشن میں کسی قسم کی گرفتاری یا جانی نقصانات اطلاعات موصول نہیں ہوئی ہے۔
گذشتہ روز بولان کے مختلف علاقوں چہپر لیٹ، زردآلو اور بوک کو محاصرے میں لیکر فورسز نے آپریشن کا آغاز کیا تھا۔
بلوچستان کے دیگر علاقوں کی طرح بولان کے مذکورہ علاقوں میں خانہ بدوش آباد ہے جن کا ذریعہ معاش گلہ بانی ہے جبکہ موسم کی تبدیلی کے ساتھ وہ علاقوں سے نقل مکانی کرتے ہیں۔
گذشتہ ماہ کے اوائل میں شروع ہونے والے فوجی آپریشن کا یہ تیسرہ مرحلہ ہے، اس سے قبل بزگر، درک اور شہرگ کے علاوہ ہرنائی کے علاقوں میں بڑے پیمانے پر آپریشن کی گئی جو تین روز تک جاری رہی اور اس دوران گن شپ ہیلی کاپٹروں سمیت جیٹ طیاروں نے حصہ لیا۔
اسی طرح مچھ، جعفری، مارگٹ اور گونی پُرا میں فوجی آپریشن کی گئی اور اسی دوران فورسز کے ہاتھوں گرفتار ہونے والے کوئلہ کان میں مزدوری کرنے والا عبدالصمد سمالانی کی لاش ملی۔
نیشنل پارٹی کے سیکرٹری جنرل اور بلوچستان حکومت کے سابقہ ترجمان جان محمد بلیدی بولان میں فوجی آپریشن بند کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ بولان میں جاری فورسز کی کارروائیوں کی وجہ سے مقامی آبادی کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، چاروں اطراف ناکہ بندی سے مقامی آبادی یرغمال ہوکر رہ گئی ہے، اشیائے خوردونوش کی قلت ہورہی ہے، فورسز کی کارروائی فوراً بند کی جائے۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے رہنماء ماما قدیر بلوچ کا کہنا تھا کہ بولان و آواران آپریشن میں عام آبادیوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔
بولان سمیت بلوچستان کے مختلف علاقوں میں فوجی آپریشنوں کا سلسلہ جاری ہے تاہم عسکری حکام کی جانب سے ان فوجی آپریشنوں کے حوالے سے بیانات جاری نہیں کیئے جاتے ہیں۔