بلوچ نوجوانوں کی ذمہ داری – امین بلوچ

360

بلوچ نوجوانوں کی ذمہ داری

تحریر: امین بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچ قوم صدیوں سے بلوچستان میں آباد ہے، جو دنیا کے اندر ایک بہادراور محنت کش قوم کے طور پہ جانا جاتا ہے، لیکن اس قوم کی بہادری ہمیشہ سے ہی قبائلی سرداروں کے زیردست رہی ہے، جو قوم کو قبائلی جنگوں میں جھونکتے رہے ہیں اور اپنے مفادات کی خاطر استعمال کرتے رہے ہیں۔ ان سرداروں کو انگریزوں نے اپنے حکمرانی کو تقویت دینے کیلئے مزید مضبوط کیا۔ بلوچ ہمیشہ سے انا اور شان کے مارے ہوئے ہیں، میرو معتبر اور سردار پکارنے پہ بہت خوش ہوتے ہیں، بلکہ فخر محسوس کرتے ہیں، اسی کمزوری کا فائدہ انگریز سے لیکر پنجابی تک ہر قابض نے فائدہ اٹھایا۔ انگریزوں نے اپنے لوٹ مار اور بلوچستان پر قبضہ جمانے کیلئے بلوچ قوم کے اندر اپنے منظور نظر سردار اور نواب بنائے، اسی طرح ہر قبیلے کو علیحدہ کیا گیا، بلوچ قومی مجموعی طاقت کو پارہ پارہ کیا گیا، اور پھر ہر سردار کو اپنے قبیلے کو زیر کرنے کیلئے مزید لالچ دیتے رہے، اس طرح یہ پالیسی کافی حد تک اکثر علاقوں میں کامیاب رہا۔

مثال کے طور پر انہوں نے مری علاقے میں نوکریاں دیں، وہ اب بھی سردار کے زیردست ہیں، جوکہ سردار کی لیویز کہلائی جاتی ہے، اسی طرح بلوچستان کے میدانی علاقوں میں سرداروں اور قبائلی میر و مخدوم اور وڈیروں کو زمینیں بانٹیں گئی جو پہلے بھی بلوچستان کے اپنے حصے تھے، اس طرح سردار اور سرداری نظام کو مضبوط اور عوام کا ان پر انحصار زیادہ کیا گیا۔ اب یہ زمینیں کس کی تھیں، کون ان کا اصل مالک تھا، کسی کو معلوم نہیں کیونکہ پوچھنے والے سردار اور میر و معتبر تھے، ان سب کو حصہ دیا گیا اور باقی ہر ٹکر کو نوکریاں دی گئیں، اور سب کو خاموش کرنے کی کوشش کی گئی، اور نظام و طریقہ انگریز نے بنایا۔ وہ نظام آج بھی موجود ہے، اور اس فرسودہ نظام کی نہ سردار مخالفت کرتا ہے، مخدوم اور نوکری والے مری، بس سب ہاں میں ہاں ملاتے ہیں۔

انگریز اپنا قبضہ بلوچستان پہ برقرار نہ رکھ سکے، لیکن انہوں نے بلوچ قوم اور سرداروں کے مفادات کو الگ الگ تقسیم کردیا جس کے سبب قوم اور وطن ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئے، کیونکہ جب مفادات الگ ہوئے تو ہر ایک اپنے مفادات کی دفاع میں لگ گیا جو کہ آج تک جاری ہے۔

خان قلات مہراب خان سے لیکر پاکستان کے قبضے تک انگریز کے وفاداربلوچ سرداروں نے اپنے سرزمین سے وفا نہ کی، اور نہ ہی وطن کی دفاع کی۔ 1839 میں جب میر مہراب خان کی حکومت تھی تو کوئی باقاعدہ قومی فوج ملک کے دفع کیلئے نہیں تھی بلکہ اس سرداروں کے ماتحت قبائلی لشکر تھے، انگریز بلوچستان پر حملہ کرتے ہیں، قبضہ کرتے ہیں، مہراب خان کو شہید کرتے ہیں، لیکن یہ بلوچی لشکر جسے بلوچستان کا دفاع کرنا تھا نہیں آتا کیونکہ یہ قومی فوج نہیں ہوتی بلکہ سرداروں کے ماتحت ہوتی ہے، سنہ 48 میں جب پاکستان قبضہ کرتا ہے بھی تو پھر وہی قصہ دہرایا جاتا ہے۔ پاکستان احمد یار خان کو گرفتار کرتا ہے، میری قلات پر قبضہ کرتا ہے اور یہ قبائلی سردار اور لشکر خواب خرگوش سورہے ہوتے ہیں۔ اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے یہاں کیونکر قابض کے خلاف ایک منظم مزاحمت جنم نہیں لے سکا؟ حالانکہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ آغا عبدالکریم خان نے مزاحمت کی، سفر خان نے مزاحمت کی، بابو نوروز خان و بابو شیرو نے مزاحمت کی، لیکن جس انداز کی مزاحمت کی ضرورت تھی وہ کیوں نہ ہوسکا؟ تو اس کا بھی سادہ و آسان جواب ہمارے سامنے اُن سرداروں کاگہناونا کردار آتا ہے، جو شروع میں انگریز کے وفادار تھے پھر انگریز کے علاقائی انچارج پنجابی کے تابعدار بن گئے، اس دوران سنہ 47 میں جب بلوچستان ایک محدود عرصے تک آزاد تھا تو یہ سارے سردار ایوانِ بالا کا حصہ تھے۔

پنجاب نے بھی مفاد پرست بلوچ سرداروں کیلئے وہی انگریز والی پالیسی جاری رکھا، کسی کو لالچ، کسی کو خوف، کسی کو قبائلی جنگوں میں دھکیل کر اپنے مفادات کا تحفظ کیا اور کررہا ہے۔ قبائلی جنگوں میں رند و رئیسانی، مینگل، زہری، مری بگٹی، بگٹی جھکرانی، لانگو لہڑی سمیت دیگر بہت سے مثالیں موجود ہیں کو جھونک دیا۔

لالچ و خوف کے علاوہ قبائلی جنگوں نے سرداروں کو اپنے اپنے علاقوں تک محدود کردیا، اور اسی دوران پاکستان اپنے آپ کو بلوچستان کے طول و عرض میں مضبوط کرتا رہا۔

سنہ 2000 میں جب موجودہ بلوچ تحریک نے سر اٹھانا شروع کیا تو ابتداء میں یہی خوشی تھی کہ اب ایک منظم انداز میں جنگ کی جائے گی اور یہ گوریلہ لشکر ایک منظم قوم فوج پر منتج ہوگا اور تحریک اپنی منزل کی جانب رواں دواں رہے گا، لیکن دوبارہ وہی سردار و نواب تحریک کی قیادت کرنے لگے۔ دوبارہ یہ سردار اس جنگ کو قومی قالب میں ڈھالنے کے بجائے اپنے علاقوں و قبیلوں تک محدود کرنے میں لگے رہے، اپنے ذات اور انا تک محدود ہونے لگے، بلوچ نوجوان خوشی خوشی جنگ میں شامل ہوتے رہے اور اپنے خون سے تحریک کی آبیاری کرتے رہے لیکن اسکی قدر نہیں کی گئی اور وہی غلطیاں دہرائیں گئیں۔

گذشتہ ادوار کے پہ در پہ کمزورناکام مزاحمت نے آج ایک محدود پیمانے پر منظم شکل اختیار کی ہے، اور آج بھی اگر بغور دیکھا جائے اور باریک بینی سے تجزیہ کیا جائے تو پاکستانی سرکار کے ساتھ ساتھ انگریزوں کے جنم دیئے ہوئے سردار ہی مختلف شکل و صورت میں بلوچ مزاحمت کو کمزور کرنے اور اس کے سامنے رکاوٹ ڈالنے کی سرتوڑ کوششوں میں لگے ہوئے ہیں اور آج بھی کوئی اپنے سرداری کو بچانے کیلئے اپنے قبائلیوں کی لشکر بنا چکا ہے تو کوئی سردار آزادی کی نعرے کی آڑ میں اپنے قبائلی دشمنوں کو انتقام کا نشانہ بنا رہا ہے، تو کوئی سردار جہد آزادی کی آڑ میں پرتعیش زندگی گذار کر اپنا ذاتی کاروبار کررہا ہے۔

اس لیئے اس تمام دورانیئے میں سب سے اہم ذمہ داری بلوچ نوجوانوں پہ عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کرکے سابقہ غلطیوں سے اجتناب کرتے ہوئے آج کی محدود مزاحمت کو ایک منظم فوج کی شکل میں لانے کیلئے اپنی کوششوں میں تیزی لائیں اور ساتھ ہی بلوچ نوجوانوں کو اپنے اردگرد کے حالات کا بھی جائزہ لیکر تجزیہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کرداروں سے خود کو دور رکھیں جو سردار کی شکل میں مزاحمت کو منظم کرنے میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔