بلوچ قومی تحریک اور بابا خیربخش مری کا موقف – شہیک بلوچ

611

بلوچ قومی تحریک اور بابا خیربخش مری کا موقف

تحریر: شہیک بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچ قومی تحریک بابت بابا خیربخش مری کا موقف یہ رہا کہ ہمارے اکابرین واضح نہیں تھے کہ وہ کیا چاہتے تھے البتہ ایک دھندلا سا تصور ضرور تھا۔ انہوں نے ابتدائی مرحلے میں بلوچ کی مزاحمت کی قبائلی ساخت کو تسلیم کرتے ہوئے اسے ایک نومولود بچے سے تشبہیہ دی جو وقت کیساتھ بڑا ہوتا اور سیکھتا جائیگا۔

سلیگ ہیریسن کے بقول جب وہ بات کرتے تو شدید بے چینی سے اظہار کرتے کہ آغا عبدالکریم نے کس لیے جدوجہد کی؟ وہ مکمل طور واضح نہیں تھا، اسی طرح بابو نوروز کے جدوجہد کیا مرغی کے ایک انڈے کے لیے تھی یا ذہن میں پوری پولٹری فارم کا تصور تھا؟

بابا مری نے کم از کم بلوچ نیشنلزم کا واضح تصور دیا۔ سلیگ ہیریسن کے بقول وہ بین القوامیت کو عالمی سطح پر تمام قوموں کی برابری تصور کرتے تھے۔

کولڈ وار کے دوران جب بابا سے پوچھا گیا کہ کیا وہ امریکہ یا روس کی مدد حاصل کرنا چاہتے ہیں تب انہوں نے کہا کہ ہم مدد کس قیمت پر حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ کیا مدد کی بنیاد یہ ہوگی کہ ان کے بندوقوں سے ہمارا خون سستا ہے؟ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ اس مدد کی قیمت کہیں بہت زیادہ نہ دینا پڑے۔

غوث بخش بزنجو کے برعکس جو یہ سمجھتے تھے کہ مصالحت کیساتھ اس وقت تک انتظار کیا جائے جب تک حالات موافق ہوں اور کسی بیرونی قوت کی سرپرستی میں بلوچ الگ ہوں لیکن بابا مری کہتے تھے کہ جب تک بلوچ قوم اپنی مسلسل جدوجہد سے اس شعوری مقام تک نہیں پہنچ جاتا، جہاں وہ آزادی کے حقیقی معنی سے آشنا ہو اور اسے برقرار رکھنے کے لیے ذہنی طور پر تیار ہو۔ اس حوالے سے بابا کا یہ موقف بھی رہا کہ 1947 میں ملنے والی آزادی کو بلوچ برقرار نہیں رکھ سکا اور آگے بھی اگر بلوچ ذہنی طور پر پختہ نہ ہوئے تب ان کے لیے یہ مزید مشکلات پیدا کرسکتا ہے۔

بابا مری مسلسل جدوجہد کے نظریئے پر یقین رکھتے تھے وہ کہتے تھے کہ چھوٹی چیز ہو یا بڑی دونوں کے لیے تکالیف ایک ہی نوعیت کے اٹھانے پڑتے ہیں، اس لیے بہتر ہے بلوچ کسی عظیم مقصد کے لیے تکلیف اٹھائیں۔

عالمی قوتوں کی جانب دیکھنے کی بجائے پاکستان کے اندر رہ کر حقوق کی بات پر دو موقف تھے، غوث بخش بزنجو صاحب سمجھتے تھے کہ پاکستان ایک فیڈریشن کے طور پر چل سکتا ہے اور وہ سیاسی مصالحت پر یقین رکھتے تھے لیکن دوسری جانب بابا مری کا موقف یہ تھا کہ پاکستان ایک مصنوعی ریاست ہے جس میں پنجاب نے جہاں بنگال کی اکثریت کو تسلیم نہیں کیا وہاں وہ بلوچ کو کیسے تسلیم کرسکتا ہے؟

نواب مری کی سیاست مزاحمتی فکر ہے، انہوں نے نیشنلزم کی بنیاد پر بلوچ قوم کو یہ درس دیا کہ خود ایک قوت بن کر ہی بلوچ اپنی نجات کو حاصل کرسکتا ہے اور اپنی آزادی کو برقرار رکھ سکتا ہے۔ وہ عالمی قوتوں کے امداد سے انکاری نہیں تھے لیکن وہ یہ بھی کہتے تھے کہ کس قیمت پر ہم یہ امداد قبول کرتے ہیں یہ بھی دیکھنا ہوگا۔ کامیابی بلوچ کی اپنی قوت پر منحصر ہے البتہ بیرونی امداد کی صورت میں جدوجہد زیادہ منظم ہوسکتا ہے لیکن مکمل انحصار بیرونی امداد پر کرنا بھی گمراہ کن ہوگا۔

موجودہ تحریک پرانی تحریکوں کا نچوڑ بن کر ابھری، اس میں گذرتے وقت نے بلوچ کو بہت کچھ سکھایا۔ تکالیف اکیلے اٹھانا جہاں ایک تکلیف دہ امر ہے، وہیں یہ اعصاب کو مضبوط بھی کرتی ہے۔ بلوچ نے ریاستی جبر کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ عالمی سطح پر بھی بلوچ تحریک متعارف ہوچکی ہے لیکن اس میں بلوچ جہدکاروں کی قربانیوں کا کردار زیادہ ہے جبکہ بیرون ملک مقیم بلوچ رہنمائوں کی آپسی رنجشوں نے بلوچ کو جس طرح کے نقصانات دیئے ہیں ان پر غور و فکر کی ضرورت ہے۔ بیرون ملک مقیم بلوچ لیڈران کوئی اجتماعی قوت بننے میں ناکام رہے ہیں اور یوں بلوچ کی تحریک کو وہ توانائی نہیں مل رہی جو باہر سے ملنی چاہیئے۔ گراونڈ پر جدوجہد شد و مد سے جاری ہے لیکن بیرون ملک مقیم بلوچ رہنما گراونڈ میں ہونے والے جبر پر سفارت کاری کے ذمہ داریوں کو نظرانداز کرچکی ہے جو بلوچ کی تکلیف میں مزید اضافے کا سبب بن رہا ہے۔

پاکستان ایک فیڈریشن نہیں بن سکتا اور امریکہ سمیت دیگر طاقتیں اپنے مفادات کو زیادہ ترجیح دینگے لیکن بلوچ کا مستقبل، بلوچ کی جدوجہد صرف ہمارا درد سر ہے کہ ہم کس طرح اپنے تحریک کو منظم کرتے ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔