بلوچ سیاست میں نوجوانوں کا کردار – گہرام اسلم بلوچ

604

بلوچ سیاست میں نوجوانوں کا کردار

(تحریر: گہرام اسلم بلوچ (سابقہ چیئرمین بی ایس او

دی بلوچستان پوسٹ

سیاست، ادب اور تاریخ کے مطالعے، خاص کر ملکی اور بلوچ قوم پرستی کی سیاست پر گہری نظر رکھنے کے حوالے سے ہمارے خطے میں اکثر بلوچ نوجوانو ں کی مثال دی جاتی ہے۔ ماضی میں جب بائیں بازو کی سیاست اور سوشلسٹ نظریئے کی جدوجہد اپنے عروج پر تھی تو بلوچ نوجوانوں کا ایک گروپ بھی طبقاتی جدوجہد سے بہت متاثر تھا۔ تمام مظلوم و محکوم اقوام جن کا سرمایہ داری نظام میں استحصال ہو رہا تھا اور ہمارے ہاں بلوچ اپنے بقا کی جنگ لڑنے اور اپنے اوپر ہونے والے ظلم و بربریت سے نجات کے لیئے ایک اُمید لے کر سویت یونین سے توقع رکھتے تھے کہ شاید ان کے درد کا مداوا ہو۔

وہ بھی ایک سخت آئیڈیل دور تھا، اس وقت کے پروگریسیو نعروں کو محکوم اقوام اپنی آواز اور ترجمانی سمجھتے تھے۔ خاص کر مزدور طبقہ (USSR ) سویت یونین کو اپنا جنت تصور کرتا تھا۔ اس قدر ایک گہری وابستگی تھی کہ دنیا کے کسی بھی کونے سے تعلق رکھنے والے مزدور چاہے ان کا کسی بھی رنگ، نسل یا مذہب و کلچر سے وابستگی تھی، وہ یہ سمجھتا تھا کہ ہم ان میں سے ہیں اور وہ ہم میں سے ہیں۔

یہ ایک بالادست طبقے کا استحصالی دور تھا۔ بلوچ چوںکہ اس خطے میں کئی عشروں سے ظلم و بربریت کے سائے تلے غلامی کی زندگی گزار رہا ہے اور اس کا استحصال ہو رہا ہے۔ اس وقت بلوچ نوجوانوں کا ایک گروپ یا (سکول آف تھاٹ) بھی ترقی پسند سوچ کا حامی تھا۔ ان کا یہ خیال تھا کہ بلوچ کا مسئلہ قومی نہیں بلکہ طبقاتی ہے۔ چوںکہ اس خطے میں ہم بھی ایک مظلوم و محکوم قوم ہیں اور حریت پسندی کی جدوجہد کر رہے ہیں، اس لیئے ہم دنیا کے دوسری مظلوم اقوام کے بغیر اپنی جدوجہد کو سائنٹفک انداز میں کامیابی سے ہمکنار نہیں کر سکتے۔

دوسری جانب قوم پرستی کا نعرہ تھا۔ موجودہ دور کے پاکستانی سوشلسٹ اور کمیونسٹ قوم پرستی کو تعصب اور تنگ نظری سے تعبیر کرتے ہیں۔ بہرحال ان دونوں خیال و نظریے کے حامل نوجوان ہی تھے۔ وہ بلوچستان کی بلوچ نیشلزم سیاست کی مادر آرگنائزیشن B.S.O بلوچ اسٹوڈنس آرگنائزیشن ہو یا ملکی سطح کی دیگر ترقی پسند طلبا تنظیمیں جس میں ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن، نیشنل اسٹوڈنس فیڈریشن، قوم کی امیدیں نوجوانوں سے زیادہ وابستہ تھیں بلکہ اس وقت نوجوانوں کی رائے کو زیادہ اہمیت دی جاتی تھی اور حقیقتآ وہ انتہائی باصلاحیت، باعلم و با کردار تھے۔

بلو چ نوجوان بیک وقت نوآبادیت کے خلاف آواز بلند کر رہے تھے اور نوجوانوں کی فکری تربیت بھی کرتے تھے۔ اگر آج نوجوانوں میں وہی جوش و ولولہ پایا جاتا تو شاید بلوچ سیاست زیادہ متحرک اور سائنٹفک ہوتی اور یہ آپس کی چپقلش و اختلافات اس حد تک شدت اختیار نہ کرتے۔ یہ ان نوجوانوں اور بی ایس او کا مرہونِ منت ہے کہ انتہائی کم وقت میں بلوچستان جیسے پسماندہ علاقے کے عوام کو یہ شعور دیا کہ آپ خود ایک دھرتی کے مالک ہیں اور ہم اس وقت ایک کالونی میں رہ رہے ہیں، ہم اپنی بقا اور شناخت کے لیئے جدوجہد کر رہے ہیں، مگر ہماری جدوجہد کو سبوتاژ کرنے کے لیے ہم پہ طرح طرح کے الزامات لگائے جا رہے ہیں۔

صد آفریں ہمارے نوجوانوں کو کہ وہ بلوچ بیانیئے کو اپنے قلم سے جدید دور کے تقاضوں کے مطابق سوشل میڈیا پر بلوچ قومی سیاست، اپنی بقا اور اپنے اوپر بالادست کی نابرابری کو انتہائی سیاسی، جمہوری اور سائنٹفک انداز میں بیان کر رہے ہیں۔ بلوچ سیاست کے زیادہ تر قدآور سیاسی رہنما اسی طلبا سیاست کی پیداوار ہیں۔

چوںکہ آج میرا موضوع ہے کہ موجودہ دور میں نوجوان کیا سوچ رہے ہیں، اس لیئے میں نے ماضی کے ان واقعات کا ذکر کرنا ضروری سمجھا تاکہ چیزوں کو بہتر انداز میں بیان کرنے میں آسانی ہو۔

بلوچ معاشرہ بنیادی طور پر لبرل اور جمہوری خیالات پر مشتمل سیکولر و مذہبی انتہا پسندی سے پاک معاشرہ رہا ہے۔ آج بلوچستان سمیت ملک بھر میں مذہبی انتہا پسندی تیزی کے ساتھ پھیل رہی ہے اور نوجوان بے راہ روی کا شکار ہیں۔

بلوچستان کے نوجوان ادب اور سیاست کے حوالے سے باقی صوبوں سے زیادہ آئیڈیل ہیں۔ قوم پرست جدوجہد سے ان کی بہت ساری امیدیں وابستہ تھیں۔ ان کی بلوچ سرزمین اور زبان دوستی اتنی شدید اور گہری تھی کہ وہ بلوچ کاز کے لیئے جان دینے تک تیار تھے۔ بلوچ نوجوانوں کی سیاسی قیادت سے وابستہ امیدیں اتنی زیادہ تھیں کہ لیڈر کی آواز پر سب لبیک کہتے تھے۔ نوجوانوں کا خیال تھا کہ ہماری قیادت ہماری کمٹمنٹ اور ہمارے جذبات کی ہم سے زیادہ ترجمانی کرتی ہے۔ مگر بلوچستان میں جاری موجودہ انسرجنسی کی تحریک اور دوسرے School of thought جو کہ پارلیمانی جمہوری سیاست پہ یقین رکھتے ہوئے اپنی جدوجہد کو جاری رکھنے کے لیے میدان میں پہلے سے موجود تھے، دونوں (سکول آف تھاٹ) کی سیاسی جماعتوں میں نوجوانوں کا ایک بہت بڑا کیڈر شامل تھا۔

درمیان میں یہ ہوا کہ نوجوانوں کو بجائے ایک سیاسی و عملی اور قابلِ عمل پروگرام دینے کے جذباتی نعروں اور شارٹ کٹ راستہ اختیار کرنے کا سلوگن دیا گیا، ہماری قوم کے بے تحاشا نوجوان وقت سے پہلے اس سرزمین اور وطن دوستی کی خاطر اپنا قرض اُتار کر جدوجہد کے میدان میں شہید ہوئے۔ بعض یا تو حالات کا مقابلہ نہ کر سکے، اپنی جان بچانے کی خاطر یا یہ سوچ کر کہ ہم خود ساختہ جلاوطنی اختیار کر کے بیرونِ ممالک میں ڈپلومیٹک چینل اختیار کر کے بلوچ کیس کو اُجاگر کرنے میں یہاں سے زیادہ کام کر سکیں گے، باہر چلے گئے۔ اور بعض خوابوں کے بکھر جانے کی وجہ سے مایوس ہو کر سیاسی عمل سے دست بردار ہو کر گمنامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔

اس خلا کو اب پُر کرنے کو زیادہ وقت درکار ہے۔ 1999، 2000 کے بعد کے نوجوان یہ محسوس کر رہے ہیں کہ قوم پرستی کی سیاست کو ایک تحریک کی حد تک منظم کرنے میں ہماری قربانیاں شامل ہیں بلکہ اس کے وارث ہی ہم ہیں۔ مگر بدبختی سے ہم عملی سیاست میں موروثی سیاست کے درمیان اپنی موجودگی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ جس طرح میر غوث بخش بزنجو نے کہا تھا کہ “میری سیاست کے وارث میرے آج کے نوجوان ہیں”۔ انہوں نے فلاسفیکل انداز میں نوجوانوں کی کمنٹمنٹ اور جدوجہد کو دیکھ کر بات یہ کہی۔

ان نوجوانوں کا بلوچ سیاست میں طلبا یونین سے لے کر ون یونٹ ، MRD تک کی جدوجہد میں نوجوانوں کا جو کردار رہا ہے، وہ تاریخ کے اوراق میں ان مٹ نقوش ہیں۔ مگر ہماری سیاست اور سیاسی جماعتوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ سیاسی عمل میں بجائے نوجوانوں کی قربانیوں اور جدوجہد کے میدان میں ان کے کردار کو قبول کر کے مزید سیاسی عمل میں ان کی اہمیت اور ضرورت محسوس کرنے کے، ان کو مزید دیوار سے لگایا جا رہا ہے۔ سیاست میں ابھی بھی موروثیت کا عنصر غالب ہے۔

سیاسی جماعتوں کے پاس نوجوانوں کے لیے ایسی کوئی پالیسی نہیں ہے کہ جس سے یوتھ کی حوصلہ افزائی ہو۔ ماسوائے نیشنل پارٹی کے، جس نے حالیہ کنونشن میں نوجونواں کو آگے لانے اور ان کی اہمیت پہ بہت زور دیا۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں نوجوانوں کو encourage کر کے جمہوری اور قومی سیاست میں اُنہیں فرنٹ رول دیں تاکہ وہ بلوچ قوم پرستی کی سیاست کے بیانیے کو صحیح طریقے سے پیش کر سکیں۔

نوجوان سمجھتے ہیں کہ اگرچہ ہمارے بزرگوں نے اس جدوجہد کی بنیاد رکھی، اس تحریک کو جنم دیا لیکن اس کی جنم دن کے بعد سے لے کر پرورش تک نوجوانوں کے کردار سے کوئی ذی شعور انکار نہیں کر سکتا، مگر عملی طور پر سیاسی جماعتوں کے اندر یوتھ کا کوئی رول نہیں رہا ہے۔ حالاں کہ جدید بلوچ قوم پرستی کی سیاست کی بنیاد رکھنے والے ہی نوجوان تھے۔ میر یوسف عزیز سے لے کر آج موجودہ بلوچستان کی سیاسی قیادت اسی گراس روٹ اور طلبا سیاست کی پیداوار ہیں، ماسوائے روایتی اور موروثی سرداروں کے۔

اگر ہم غیر جانبداری اور حقیقت پسندی کا مظاہرہ کریں تو یہ ایک حقیقت ہے کہ خطے کی موجودہ سیاسی، معاشی، ملکی اور بین الااقوامی سیاست میں نوجوان زیادہ باخبر ہیں اور حالات کا زیادہ ادراک رکھتے ہیں۔ بابائے بلوچستان میر غوث بخش بزنجو نے اُس وقت کہا تھا کہ اگر آج نوجوانوں کی آواز کو نہیں سُنا تو کل ایک آواز اُٹھے گی جو کسی کو سُننے کے لیے تیار نہیں ہوگی۔ آج بھی یہی صورت حال ہے۔

نوجوانوں کے جائز اور مثبت تحفظات کو دور کرنے کے لیے اس تعمیری عمل میں ان کی شرکت کو یقینی بنایا جائے۔ کل اگر یہی بی ایس او کے نظریاتی نوجوان اپنے وجود کی آواز کو اُجاگر کرنے میں، اپنے عوام کو موبلائز کرنے اور نوآبادیت کے خلاف ایک کلیدی کردار ادا کر سکتے تھے اور کیا بھی، اور آج بھی اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ بی ایس او کا ایک شاندار ماضی اور حال ہے اور بلوچ عوام آج بھی بی ایس او کے نام اور اس کی جدوجہد سے پُرامید ہیں۔ کیونکہ بی ایس او نے قوم کے ذہن و دماغ میں ایک ایسی آواز پھونک دی ہے کہ جہاں بھی بی ایس او کا نام آ جائے تو ایک جذبہ بیدار ہو جاتا ہے۔

اب ضرورت اس امر کی ہے کہ عوامی سیاست کو زندہ رکھنے اور ایک منظم قومی آواز بننے کے لیے بُزرگ تجربہ کار قیادت اور نوجوان باصلاحیت قیادت ایک دوسرے کے ساتھ شانہ بشانہ ہو کر بلوچ قوم پرست سیاست کی جدوجہد کو جدید دور کے تقاضوں کے مطابق آگے لے جائیں تو نوجوانوں کی حوصلہ افزائی ہوگی اور حالات میں بھی بہتری آنے کے امکانات زیادہ ہوں گے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔