بلوچ رہنماؤں کا امتحان
تحریر: میرک بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
واقعات و حوادث، حالات و عناصر اپنے تسلسل کے ساتھ تاریخ میں جاگزیں ہوجاتے ہیں۔ غلطیاں اور کوتاہیاں، کامیابیاں اور کامرانیاں مستقل طور پر اور مسلسل وقوع پزیر ہوتے ہیں۔ 1960ء کی دہائی میں کریبین، افریقن ،ہند چینی میں تسلسل وار جدوجہد نے استعماری قوتوں، قبضہ گیر طاقتوں کو روند کر اپنی عظیم سرزمینوں کو آزادی سے ہمکنار کیا، 1970ء کی اور 1980ء کی دہائیاں بھی پر آشوب تھیں۔ ان تمام تحریکات میں سب سے بڑی نکھار قیادت کی مستقل مزاجی اور تنظیمی نظم و ضبط نے اہم کردار ادا کیا۔ انقلابی تحریکات میں ڈسپلین اہم کردار ادا کرتی ہے۔ شخصی پسند و ناپسند اور تحریک میں آزاد خیالی اور ذاتی دوستیاں زہر قاتل بن جاتے ہیں۔ گروہ بندی اور اقربا پروری کا انقلابی تحریکات میں پنپنے کا مطلب تصورات کی عدم خرد اور عدم علم ہے۔ سائنسی بنیادوں پر استوار ہی حقیقی معنوں میں حاصل علم ہوتا ہے۔ کم مائیگی، کجام روی، کم فہمی، بھونڈہ پن، لفاظی، جاہ طلبی، خود نمائی و خود ستائی، ذاتی تعلقات، نام و نمود، بیگانہ پن، ساتھیوں سے بغض و حسد، جلن و منافقت ایسے تباہ کن حالات پیدا کردیتے ہیں کہ تحریک کا دائرہ چند لوگوں تک ہی محدود ہوجاتا ہے۔ اور پھر یہی عناصر اپنی مرضی و منشا کو دوام دیتے ہیں۔ تنقید کو ذاتی دشمنی سمجھتے ہیں۔
ریگز ڈیبرے کہتا ہے کہ ” کسی بھی انقلابی پارٹی میں بغیر سوچے سمجھے آپ کسی کو کوئی اہم منصب دیتے ہیں، تو وہ شخص خود کو اہم سمجھنے لگتا ہے ۔ اور وقت آتا ہے کہ وہ فرد خود ستائی میں مبتلا ہو کر الگ تھلگ ہوجاتا ہے۔”
ہر فرد کا اپنا ایک جداگانہ نفسیات بھی ہے۔ اور نفسیاتی کیفیت مختلف ماحول و معاشرے کے دوسرے مضمرات بھی لئے ہوتے ہیں۔ اگر فرد میں استحکام نہ ہو، اسکی نظریاتی بنیاد نہ ہو، تو وہ خرافات میں مبتلا ہوتا ہے۔ اور یہاں پر اس کی تذبذب سے بھرپور نفسیات اس کی حسی کمزوری کا اعلیٰ نمونا ہوکر فیصلہ سازی سے پہلو تہی کرتا ہے۔ اور بعض اوقات فیصلہ کرنے کی صلاحیت بھی کھو دیتا ہے۔
کسی بھی تحریک میں لیڈر شپ کی جرآت، ہمت،بہادری تحریک کو چار چاند لگاتے ہیں اور صحیح وقت پر درست فیصلہ کرکے کامیابی و کامرانی حاصل کرکے تاریخ میں امر بن جاتے ہیں۔ لیڈر شپ میں جرآت اور بہادری کے ساتھ وسیع النظری، ایمانداری، موقف کی وضاحت، بلاغت و ریاضت، دریا کی روانی سے موثر خطابات، جوش و ولولہ شاندار نتائج مرتب کرتے ہیں ۔ عوامی ہردل عزیزی کے بغیر لیڈر ایک نمائشی اور سطحی فرد ہوتا ہے۔ عوامی پذیرائی کی پہلی شرط کرشماتی حیثیت اعلیٰ وصف، ذاتی صلاحیت، باوقار اوصاف، نظریاتی پختگی، جانثاری تحریکات کی کامیابی میں از حد ضروری ہوتے ہیں۔
پوری انسانی تاریخ عظیم رہنماؤں کی عظمت سے منور ہے۔ جنھوں نے اپنی قوم اور انسانیت کو عظمت کی میناروں پر پہنچایا اور آنیوالی تحریکوں کے لئے مشعل راہ بن گئے۔ بلوچ قوم کی آزادی کی تحریک ایسے عظیم رہنماؤں کی جانگسل قربانیوں سے عبارت ہے۔ موجودہ جاری تحریک کو شہداء نے اپنے لہو سے سینچا ہے۔ اس قوم کی خوش بختی ہے کہ اس کے رہنماؤں نے اپنی جانیں اپنے وطن اور اپنی قوم کے لئے قربان کی ہے۔ بلوچ قوم واقعی خوش قسمت ہےکہ وہ ایک ایسی تحریک کے وارث ہیں کہ اس وقت اس خطے میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔
کوئی مانے یا نہ مانے کسی کو اچھا لگے یا برا بین الاقوامی اور خطے کی صورتحال بلوچ قومی آزادی کی جاری تحریک کے حق میں ہیں۔ تاریخ میں پہلی بار بلوچ قوم کی روشن مستقبل کا موقع ہاتھ آیا ہے۔ ایسے لمحات تحریکوں میں بہت کم آتے ہیں۔ آج پاکستانی ریاست اپنی بدترین بحران میں مبتلا ہے۔ یہ بحران دن بہ دن بدتر ہوتا جارہا ہے۔ پاکستانی ریاست کا بحران مزید وسیع ہونے کی طرف مائل ہوچکی ہے۔ اس انتشاری صورتحال میں اس کے سنبھلنے کے امکانات تقریباً ختم ہوچکے ہیں۔ اس کے فوجی جرنیل اس امید میں بیٹھے ہیں کہ کاش کہیں سے ان کو پھر کوئی موقع ملے اور پھر سے عالمی طاقتوں کو ان کی ضرورت پڑ جائے۔ مگر اب ایسا کچھ نہیں ہونیوالا ہے۔ کیونکہ عالمی طاقتوں کے مفادات تبدیل ہوچکے ہیں۔ بلکہ پاکستانی جرنیلوں کی چیرہ دستیوں کی وجہ سے اب اس ریاست اور اسکے جرنیلوں کو سبق سکھانے کا وقت آگیا اور عالمی قوتیں اب ان کے ساتھ کوئی نرمی کے موڈ میں نہیں ہیں۔
یہ وقت بلوچ قومی آزادی کی تحریک اور ان کے رہنماؤں کے لیئے شاندار موقع کے ساتھ ان کی صلاحیتوں کے امتحان کا بھی وقت ہے۔ بلوچ قومی آزادی کے رہنماؤں اور کارکنوں کا یہ فرض ادا کرنے کا وقت ہے اور اپنی صلاحیت، بیباکی، ڈسپلین، ہوشیاری، مستقل مزاجی، ریاضت اور بھرپور تیاری کے ساتھ مزید آگے بڑھنا ہوگا۔ اس سلسلے میں
1) ایک منظم انقلابی کمان کونسل کی تشکیل اہمیت اختیار کررہی ہے ۔
2) بیرون ملک مقیم جلاوطن کارکنوں کا آپسی جڑت رابطے اور پیغامات کی ترسیل ازحد ضروری ہوگئے ہیں ۔
3) تمامتر چونکہ اگر مگر کے بغیر آزاد جلا وطن عبوری حکومت کا اعلان ۔
بلوچ سرمچار اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ میدان عمل میں اپنا قومی و تاریخی فرض ادا کررہے ہیں۔ چونکہ سرفیس کے تمام ساتھی بیرون ممالک میں عالمی برادری کے سامنے اپنا موقف پیش کرنے میں بالکل کامیاب نظر آرہے ہیں۔ مگر ان سب کو مزید آگے بڑھانا ہوگا۔ یہ وقت ان باتوں کا نہیں کہ ایک قدم آگے اور دو قدم پیچھے بلکہ اب یہ وقت ہر قدم آگے مزید آگے بڑھنے کا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔