پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے امریکی دورے کے موقع پر یورپین پارلیمنٹ کی جانب سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ایک خط لکھا گیا جس میں اسے پاکستان کے شورش زدہ صوبے بلوچستان کے حالات کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ اُن سے بلوچستان میں مداخلت کرنے کی اپیل بھی کی گئی ہے۔
خط میں لکھا گیا کہ پاکستان بلوچوں کو دبانے اور ظلم کے پہاڑ توڑنے سمیت صوبے کے لوگوں کو عدالتی انصاف سے محروم رکھا جا رہا ہے، جسکے باعث وہاں کے لوگوں کو زندگی کی بنیادی سہولیات سمیت بنیادی انسانی حقوق بھی میسر نہیں ہے۔
خط میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی کمزور معیشت کے بعد ریاست کی معیشت کا دارومدار بلوچستان سے نکلنے والے ذخائر پر ہے جسے وہ چین سمیت دیگر ممالک کو بھیج کر بلوچستان کو بے دردی سے لوٹ رہا ہے ، ہونا تو یہ چاہیے تھا کے چین بلوچستان کے مالک بلوچ عوام سے گفت و شنید کرتا ، لیکن اس کے برعکس چین نے پاکستان کے ساتھ مل کر بلوچ دشمنی کو مزید تقویت دی اور بلوچستان کے وسائل سے بلوچوں کو ہی محروم رکھا ۔
خط میں مزید کہا گیا تھا کہ دہائیوں سے پاکستانی حکومت بلوچستان کی عوام کو اغواء کرنے کے بعد لاپتہ کرنے اور انکی نسل کشی میں ملوث رہی ہے جس کا انکشاف خود پاکستانی عدالتیں کر چکی ہیں، عالمی دباوں سے بچنے کے لیے پاکستانی حکومت نے 2011 میں جبری گمشدگیوں کے خلاف ایک کمیشن تشکیل دی جس کے مطابق 2017 تک جبر ی گمشدگیوں کے 1240 کیسز رپورٹ ہوئی ہیں جن کے خلاف آج تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے۔
خط میں کہا گہا ہے کہ بلوچستان میں موجود انسانی حقوق کے تنظیمیں بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن اور ہیومن رائٹس کونسل بلوچستان کے مطابق موجودہ سال کے صرف جنوری میں بلوچستان سے 77 افراد کی جبری گمشدگی سمیت 18 افراد کو ماورائے عدالت قتل کیا گیا اور اسکے اگلے ماہ فروری میں 46 گمشدگیوں سمیت 17 افراد کے قتل کے کیسز بلوچستان کے مختلف علاقوں سے موصول ہوئی ہیں جبکہ اس دورانیے میں 36 بازیاب ہوئے تھے، جو سالوں سے لاپتہ تھیں جنکے بارے میں پاکستانی سیکیورٹی اداروں کے پاس کوئی مقدمہ درج نہیں تھا ، اسی طرح بلوچستان سے جبری طور پر لاپتہ ہونے والے افراد میں ایک واضح تعداد بلوچ خواتین اور بچوں کی بھی ہے، دوسری جانب بلوچستان میں ہر آئے روز ایسی لاشیں بھی برآمد ہورہی ہیں جن کو پاکستانی حکام کے کہنے پر بغیر شناخت کے دفن کر دیا جاتا ہے، جس کے بعد یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ یہ لاشیں اُن لاپتہ افراد کی ہیں جنہیں پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے مختلف اوقات میں گرفتار کرکے لاپتہ کیا تھا ۔
یورپی پارلیمنٹ کے ارکان کے اس خط میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ 1947 میں جب پاکستان نے بلوچستان پر قبضہ کیا تو اس وقت سے بلوچ مزاحمت کاروں نے اس کے خلاف مزاحمت شروع کی اور تب سے اب تک بلوچ مزاحمت کاروں کی جانب سے ایسی کوئی کارروائی سامنے نہیں آئی ہے جسے دہشت گردی قرار دیا جاسکے ، بلکہ بلوچوں نے ہمیشہ پاکستانی حکومت اسکی فوج سے اپنی زمین اور خاندان کی حفاظت کے لئے مزاحمت کی ہے جو دفاع کے صورت میں کیا جاتا ہے لیکن اسکے برعکس پاکستان عالمی جنگی قوانین کی سنگین خلاف ورزی کا مرتکب رہا ہے۔
یورپین پارلیمنٹ کے وزراء نے امریکی صدر سے اپیل کی ہے کہ بلوچوں کو دہشت گرد قرار دینے کے بجائے وہ بلوچستان کے حالات کا صحیح طرح سے جائزہ لیکر بلوچستان میں مداخلت کرے ۔
انکا کہنا تھا کہ بلوچ اپنی زمین اپنی شناخت اور بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں اور وہ دہشت گرد نہیں ہو سکتے انہیں دہشت گرد قرار دینا انکے لیے اور بھی نقصانات پیدا کیے جانے کا سبب بنے گا۔
خط کے آخر میں کہا گیا تھا کہ آپ کی طرح ہم بھی خطے میں امن و استحکام کے خواہاں ہیں اور ہم آپ کے شکر گزار ہونگے اگر آپ پاکستان کے وزیراعظم سے بلوچستان کے عوام کی بدترین صورتحال کا ذکر کریں