بلوچستان کے دو عظیم شخصیات – لونگ بلوچ

385

بلوچستان کے دو عظیم شخصیات

تحریر: لونگ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

اگر بلوچستان میں شعور برپا کرنے والوں کی بات کی جائے تو میرے مطابق صباء دشتیاری اور پروفیسر عبدالرزاق سرفہرست ہیں۔ زندگی میں مجھے اگر ان عظیم شخصیات کے بارے میں کچھ لکھنے کا موقع ملا تو یقیناً میں خود کو بےحد خوش نصیب تصور کرونگا کیونکہ مجھ جیسے کم علم شخص کو ایسے عظیم ہستیوں کے بارے میں لکھنے کا موقع ملا ہے۔

محترم صباء دشتیاری کراچی میں پیدا ہوئے، والدین نے آپکا نام غلام حسین رکھا۔ آپ نے قلمی نام صباء دشتیاری رکھا۔ صباء دشتیاری نے ابتدائی تعلیم سیکنڈری گریجویشن پوسٹ کراچی سے ہی حاصل کی ابتداء میں آپکا رجحان اسلامیات میں تھی، آپ نے اسلامیات میں ایم اے بھی کیا۔

بعد ازاں آپ 1980 میں بلوچستان یونیورسٹی کے شعبہ اسلامیات میں لیکچرار تعینات ہوئے، بچپن سے آپکو بلوچی زبان اور شاعری سے لگن تھی آپ اقبال کے شاعری سے متاثر ہوئے، ابتداء میں آپ نے اردو شاعری، فلسفہ اسلامیات پر کتابیں تحریر کیئے، عظیم شخص صباء دشتیاری کی زندگی نے اس وقت ایک نیا موڑ لیا جب وہ بلوچستان یونیورسٹی میں لیکچرار تعنیات ہوئے۔ آپ نے دیکھا کہ بلوچ قوم خود ایک قوم ہے، جس کی ہزاروں سال پرانی تاریخ ہے، اسی اثناء میں آپ نے تنقیدی جائزہ لیا اور پھر آپ نے بلوچی زبان پر کام کیا، بلوچی افسانے لکھے، بلوچی شاعری کی، اسی طرح آپکو آپ کی زبان سے بے حد محبت ہونے لگی، اسی لیئے آپ نے اپنے دیگر کاموں کو چھوڑ کر اپنے زبان کو ترجیح دی اور اپنی کھوئی ہوئی تاریخ کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش میں گامزن ہوئے، اپنی جدوجہد کی وجہ سے وہ قوم پرست اور ہیومینسٹ بننے لگے اور آپکو بلوچی ثقافت اور بلوچی زبان رسوم و رواج سے بےجد محبت ہونے لگی۔

عام اساتذہ ہمیشہ اپنے گریڈ اور تنخواہ بڑھانے کے لیئے کام کرتے ہیں۔ مگر صباء دشتیاری ان چیزوں کے متعلق بے حد اختلافات رکھتا تھا کیونکہ آپ عالم و فاضل تھے۔ آپ بے حد صلاحیتوں کے مالک تھے، آپ استادوں کے استاد تھے۔ اب جبکہ دشمن اپنے محکوم قوم کے ثقافت، زبان کو لشکری بنا کر ان کا وجود ختم کرنا چاہتا ہے، دشمن ہمیشہ ہر طریقے سے وار کرتا ہے وہ گولی کے ذریعے بھی کرتا ہے ۔ مگر صباء دشتیاری اس مظلوم قوم کیلئے ہمیشہ ایک اچھے رہنما کی طرح ہمیشہ پاکستانیوں کے منفی پروپکنڈوں کو غلط ثابت کرتا رہا کیونکہ وہ اپنے ثقافت اور زبان سے بہتر طرح سے واقف تھا، آپ بلوچ قوم کی ہر طرح حمایت کرتے، آپ لکھتے بلوچ قوم کمزور قوم بالکل نہیں ہوسکتا، وہ ہر قوم کے برابر ہے، جس طرح دوسرے اقوام ہیں۔

آپ نے اس بات کا بھی اعلان کیا کہ بلوچ قوم کی غربت، افلاس، پسماندگی اور ناخواندگی کا حقیقی ذمہ دار بیرونی قابضین ہیں تو دوسری طرف بلوچ قبیلے کے ان پڑھ گوار سردار نواب ہیں۔ آپ کا کہنا تھا کہ آستین کے سانپ نو آبادیاتی حکمرانوں کی دلاری کرکے بلوچ قومی وسائل لوٹ رہیں ہیں، اسی لیئے بلوچوں کی طاقت بٹ گئی ہے، بلوچ سردار ایک روایتی اور با عزت سربراہ ہونے کے بجائے ریاستی گماشتے کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔

اسی طرح صباء دشتیاری نے کہا کہ بلوچ جدوجہد سماج کے تمام دشمنوں کے خلاف لڑی جا رہی ہے، چاہے وہ قابضین ہوں یا سماجی سردار ہوں۔

دو ہزار میں جب بلوچ قوم میں آزادی کی حصول کیلئے مسلح جدوجہد شروع ہوئی، تو آپ اس جدوجہد میں پیش پیش تھے گرفتار شدہ بلوچوں کی بازیابی کیلئے بھوک ہڑتال بھی کیئے۔

قابضین کے خلاف جنگ صرف ایک گولی سے نہیں ہوتی بلکہ اس کیلئے علم فلسفہ ضروری ہوتا ہے، ہر انسان میں شعور۔ ہر طالب علم و ہر شخص میں قابضین کے خلاف نفرت ہونی چاہیئے، یہ جنگ صرف مردوں کیلئے نہیں اس میں عورتوں کا بہت بڑا کردار ہوتا ہے، جس طرح ہمارے پاس کردستان کی خواتین کی مثالیں ہیں، جنہوں نے دشمن کے خلاف ہر میدان میں لڑائی لڑی ہے، اس میں ہر طلباء کا اہم کردار ہوتا ہے، اور طلباء کے ضمیر کو جگانا ہوتا ہے، صباء دشتیاری بالکل یہی سمجھتا تھا وہ عوام میں شعور برپا کرنے کیلئے جدوجہد کرتے تھے، آخر میں قابضین کے سامنے بہت بڑی رکاوٹ بن گئے۔ اسی لیئے جابر ریاست نے اسے بے دردی سے شہید کردیا۔

دوسری طرف دیکھا جائے تو پروفیسر عبدالرزاق خضدار کے علاقے باغبانہ کے رہنے والے تھے، آپ کی ایک علیحدہ سوچ تھی، ہم خوش نصیب ہیں کہ ہمارے دھرتی نے ان عظیم ہستیوں کو جنم دیا، وہ اس محکوم قوم کیلیئے ایک رحم دل راہشون تھے۔وہ طلباء میں شعور و علم کی روشنی بلا امتیاز منور کررہا تھا۔

پروفیسر صاحب ہمیشہ کہتے تھے کہ خضدار کے عوام ایک کنویں میں ہیں، میں ان کو کنویں سے نکالنے کیلئے آیا ہوں۔ وہ ہمیشہ بچوں کے مستقبل کیلئے سوچتا تھا، آپ باہمت و نڈر تھے۔ خضدار میں کچھ اطلاعات کے مطابق اسے ہر روز دہمکایا جاتا کہ آپ اپنا تعلیمی ادارہ بند کردیں یا تمھیں موت کی گھاٹ اتار دیا جائے گا، مگر وہ ہمیشہ کی طرح نرم دل ہوتے ہوئے بچوں کے مستقبل کا سوچتے۔ دشمن کو شرمندہ کرکے الٹے پاؤں بھیجتا تھا۔ کیونکہ جابر ریاست کبھی نہیں چاہتا کہ یہ عوام کبھی ترقی کرے، اسی طرح جابر ریاست نے انہیں بھی شھید کیا، وہ ہمیشہ علم کو اہمیت دیتے تھے۔

بلوچستان میں گمشدہ لوگ انسانی حقوق کے اداروں پر سوالیہ نشان ہے، مگر ان عظیم ہستیوں کا قتل انسانی حقوق کی اداروں کیلئے شرم کا باعث ہے، اگر ایسے عظیم ہستیوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے گا تو یقیناً ایک دن یہ دنیا وبال بن جائے گی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔