بلوچستان میں خودکشی کے بڑھتے واقعات – کوہ روش بلوچ

229

بلوچستان میں خودکشی کے بڑھتے واقعات

کوہ روش بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

زندگی کیا ہے؟ انسان دنیا میں کیوں آیا ہے؟ ان چیزوں کے بارے ایک مکمل نظریہ پیش کرنا ممکن ہی نہیں۔

جس کسی کو جو سمجھ میں آیا، اس نے زندگی کو وہی معنی دے دیا۔ کچھ لوگ اسی دلدل میں پھنسے ہوتے ہیں اور ان لوگوں کی پوری زندگی گذر جاتی ہے اور زیادہ تر لوگ اپنے بزرگ ،باپ ،دادا اور معاشرے کے لوگوں کو فالو کرکے انہی کی طرح زندگی گزارنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ وہ لوگ اپنے بزرگوں کو فالو کرتے ہیں، اصل میں ان کے بزرگ اپنے بزرگوں کو فالو کرتےآرہے ہیں اور وہ اسی طرح زندگی گزارنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

وقت ،حالت اور انسانی ضرورت ہر روز بڑھتے جارہے ہیں، کل کی زندگی اور آج کی دنیا میں آسمان و زمین کا فرق ہے، دنیا آگے چلا جارہا ہے، انسانی ضروریات زیادہ ہورہے ہیں اور اس وقت انسان محسوس کرتا ہے کہ زندگی کے صحیح معنی کو ڈھونڈا جائے۔

بہت سے لوگ اس الجھے ہوئے سوال کا جب کوئی جواب ڈھونڈ سکنے میں ناکام ہو جاتے ہیں، جب وہ اس بوجھ تلے بلبلانے لگتے ہیں، جب مسئلوں کے خود پر لدے ہوئے بوجھ کو سہارتے رہنے سے عاری ہونے لگتے ہیں تو وہ اپنی زندگی کو بےمعنی اور لاحاصل جان کر خود اپنے ہاتھوں سے ختم کر لیتے ہیں۔ جسے عام الفاظ میں خودکشی کہتے ہیں۔

اب اس بات پہ ذرا ہلکی نگاہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں، تاریخ عالم میں کس طرح کے لوگ خودکشی کرتے ہیں؟ اور کیوں؟

خودکشی کی تاریخ بڑی عجیب ہے۔ ماضی میں لوگ زیادہ تر اپنے عزت و ناموس برقرار رکھنے کے لیئے خودکشی کیا کرتے تھے۔ قدیم یونان اور روم میں فوجی جنرل اس وقت خود کشی کے مرتکب ہوتے تھے جب وہ دشمن کی فوج کو خود پر غالب دیکھتے تھے۔ یونان میں ایک نامور سیاستدان ڈیمس تھیس نے میسو ڈومیہ کی فوج کے ہاتھوں گرفتار ہونے پر زہر کھانے کو ترجیح دی۔ اسی طرح جب روم میں سیزر کے قاتلوں کو شکست ہوئی تو بروٹس اور اس کے ساتھیوں نے گرفتاری سے بچنے کے لیے خودکشی کر لی۔ سقراط نے سچ کو بچانے کے لیے زہر پی کر اپنے ہاتھوں اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا۔ اس کے اس اقدام نے محض خودکشی کو ناموری نہیں دی بلکہ اسے سچ کی فتح کے لیئے دی جانے والی عظیم قربانی کے طور پر تاریخ کے پنوں میں امر کر دیا۔ جاپان میں عزت کے نام پر خود کشی کی رسم ایک بہت قدیم رسم ہے جو ”سمورائی“ کلچر کا حصہ تھی۔ یہ رسم”ہارا کاری“ کے نام سے موسوم تھی۔ لوگ اپنی عزت کو بچانے کی خاطر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیتے، اور اس طرح کی موت کو بہت عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا، اور حیرت انگیز طور پر آج بھی خودکشی کو جاپان میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ تاریخ میں بہت سی نامور شخصیات نے بھی اپنی جان کا خود اپنے ہاتھوں خاتمہ کیا جیسے ھیمنگ وے اور مارلن منرواور ہٹلر وغیرہ۔

اور ماہرین خودکشی کے بارے میں کیا کہتے ہیں اس کو بھی جاننے کی کوشش کرینگے۔

خودکشیوں کے جن بڑے بڑے وجوہات کی دنیا بھر کے ماہرین نے نشاندہی کی ہے وہ کم و بیش ایک جیسے ہیں۔ مگر پھر بھی یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ دنیا بھر میں ہونے والی خود کشیوں کی وجوہات ایک جیسی ہوتی ہیں کیونکہ ہر خودکشی کے واقعے کی اپنی ایک کہانی اور ایک وجہ ہوتی ہے۔ تاہم ماہرین اور ماہر نفسیات کی رائے کے مطابق بے چینی( انگزائٹی) اور دباؤ (ڈپریشن) میں فرق یہ ہے کہ بے چینی کا تعلق کسی ایسے کام یا واقعے سے ہوتا ہے جو مستقبل میں وقوع پذیر ہونے کا خدشہ ہو جبکہ ڈپریشن یا دباؤ کا تعلق ماضی کی کسی یاد سے ہوتا ہے۔ چنانچہ خودکشی کا تعلق ہمیشہ ماضی سے یعنی ڈپریشن سے ہوتا ہے ۔ خودکشی میں مختلف اقسام کی ذہنی خرابیوں ( ملٹی ڈائمینشنل ڈس آرڈرز ) کا بیک وقت عمل دخل ہوتا ہے جن میں حیاتیاتی، جینیاتی ، نفسیاتی اور ماحولیاتی خرابیاں شامل ہیں۔ خود کشی کی جو وجوہات بتائی جاتی ہیں ان میں ذہنی ونفسیاتی بیماریاں یعنی ڈپریشن، انگزائٹی، پرسنالٹی ڈس آرڈر، شیزو فرینیا، بائی پولرڈس آرڈر وغیرہ شامل ہیں ان ذہنی و نفسیاتی بیماریوں کو فروغ دینے میں جو بیرونی عوامل کار فرما ہوتے ہیں ان میں کوئی تکلیف دہ تجربہ جن میں جسمانی تشدد، جنسی تشدد، جنگ کا ماحول، کسی عزیز کی موت ،مسلسل غنڈہ گردی کا شکار ہونا، منشیات کا استعمال،خوراک میں عدم توازن،بے روزگاری ، تنہا پسندی، غربت ،رشتوں میں عدم توازن ،جینیاتی مسئلے ،وجود کا بحران یعنی اپنی زندگی کو بے معنی سمجھنا،مہلک یا ناقابل علاج یا دائمی بیماری، دائمی درد، ادوئیات کا بے دریغ استعمال وغیرہ شامل ہیں۔

اب ہم آتے ہیں اپنے اصل موضوع پہ بلوچستان میں اس وقت خودکشی ایک وبا کی طرح کیوں پھیل رہا ہے، درجہ بالا ہم نے جو مثالیں پیش کیئے جو خودکشی کرنے کی وجوہات بنتے ہیں وہ تمام چیزیں اس وقت ہمارے معاشرے میں موجود ہیں، جنسی اور نفیسیاتی دباؤ سے لے کر منشیات اور بیروزگاری تک۔ پھر بھی اس وقت انسان کے ذہن میں کئی سوالات اٹھ رہے ہیں۔

ان تمام چیزوں کو ہم تک کس نے پہنچایا ہے؟ کیا ان سے مقابلہ نہیں کیا جاسکتا ہے؟ ہم اس بات کو جاننے کی کوشش کیوں نہیں کرتے ہیں کہ ہمیں اس ماحول میں دھکیلنے کا اصل مقصد کیا ہے؟ .

آج بلوچستان میں آپکو منشیات کے اڈے سرِعام ملتے ہیں، بیروزگاری کا عالم یہ ہے کہ ایک کمانے والا ہے اور دو درجن لوگ کھانے والے ہیں۔ فوجی ظلم جبر اور بربریت، ناخوانندگی صحت کے سہولت نہ ہونا۔ ان تمام چیزوں کو کون کر رہا ہے؟ اس سوال کو اس وقت ہر ذی شعور انسان سے پوچھا جائے تو جواب صرف اور صرف ایک ہی آئیگا مملکت پاکستان اور پاکستانی فوج ہے۔ پھر ان تمام چیزوں کو جاننے کے باوجود ان چیزوں کا مقابلہ کرنے کے بجائے کیوں لوگ خودکشی کو ترجیح دیتے ہیں؟

کیا ہمارے معزز لیڈر اور ماہرنفسیات لوگوں نے اس پہ کھبی غور کرنے ضرورت محسوس کی ہے؟ کیا ان تمام چیزوں پہ ہم صرف عوام کو مورود الزام ٹہرا سکتے ہیں؟ ان تمام چیزوں کے لیئے کیا بلوچ لیڈر شپ ذمہ دار نہیں ہے؟ کیا اس کے بارے میں کوئی خاطر خواہ چیزوں کی فلینگ پہلے سے کی گئی ہے؟

یا ہم اس فلسفے پہ جی رہے ہیں جنگوں میں اس طرح کی چیزیں ہوتے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو ہم کیوں یہ کہتے ہیں جنگیں چالیس فیصد محاذ اور ساٹھ فیصد پروپگنڈا سے جیتی جاتی ہیں؟

دشمن آج پروپگنڈا کر رہا ہے اور ہم کیا کر رہے ہیں؟
سوالات بہت سے اٹھ رہے ہیں جواب کچھ بھی نہیں


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔