بلوچستان میں ایک دہائی سے ریاستی اداروں کی جانب سے ایمرجنسی نافذ کی گئی ہے – ماما قدیر بلوچ

192

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے قائم احتجاجی کیمپ کو 3644 دن مکمل ہوگئے، مختلف مکتبہ فکر کے لوگوں نے کیمپ کا دورہ کرکے لاپتہ افرد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس خطے میں بلوچ قوم گذشتہ چھ دہائیوں سے منظم نسل کشی اور جبر کا شکار ہے جہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کھلے عام ریاست کے اداروں کے ہاتھوں ہورہی ہیں ایک ایسی ریاست کے ہاتھوں جو عالمی برادری کے امداد پر چل رہا ہے۔ بلوچ قوم پر ظلم و ستم اور بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں آج کی بات نہیں اور نہ ہی چند سالوں کی بلکہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ 27مارچ 1948کو بلوچ قومی ریاست کو فوج کشی کے ذریعے پاکستان میں ضم کرکے بلوچستان کو نوآبادی بنایا گیا اسی دن سے ہی بلوچ قوم کے حقوق غضب کیے گئے جس کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔

انہوں نے کہا بلوچستان میں گذشتہ ایک دہائی سے ریاستی اداروں کی جانب سے ایمرجنسی نافذ کی گئی ہے جہاں نہ کوئی ریاستی قانون نافذ ہوتا نظر آتا ہے اور نہ ہی عالمی انسانی حقوق کے قوانین سمیت کسی بھی عالمی قانون کی پاسداری ہورہی ہے۔ بلوچستان میں اس وقت وفاق کے تحت ایک صوبائی اسمبلی کام کررہی ہے جس کے پاس نہ ہی مینڈیٹ ہے اور نہ ہی یہ کسی بھی معیار پر ایک نمائندہ ایوان ہے اور نہ ہی اس کے پاس کسی قسم کے عملی اختیارات ہیں۔

ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچستان حکومت اسمبلی نہیں بلکہ فرنٹیئر کور چلارہی ہے جس سے ایک طرف اسمبلی کی برائے نام ہونا واضح ہوتا ہے تو دوسری جانب فرنٹیئر کور کی بحیثیت ایک ریاستی پیراملٹری ادارے کے بلوچستان میں موجودگی اور ان کے کاروائیوں کی نوعیت بھی واضح ہوجاتی ہے۔