بلوچستان: تعلیم کے حق سے کمتر کیا مانگیں؟ – ظریف رند

163

بلوچستان: تعلیم کے حق سے کمتر کیا مانگیں؟

تحریر: ظریف رند

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچ طلباء حسبِ معمول اپنے اپنے کیمپسز میں علم کے زیور سے آراستہ ہونے کے بجائے سڑکوں کی خاک چھاننے پر مجبور ہیں اور محکمہ تعلیم و ذمہ داران کے دفاتر پر دستک دے دیکر مایوسی کے بعد پچھلے ایک ہفتے سے کوئٹہ پریس کلب کے باہر علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ لگائے بیٹھے ہیں تاکہ حکمرانوں کی پرآسائش ایوانوں تک اپنی صدا پہنچائیں مگر، ہائے رے بلوچستان واسیوں کی تہرے درجے کی شہریت ! کہ ان کی فریاد سننے والا بھی کوئی نہیں۔ مذکورہ بالا مظاہرین میڈیکل کالجز کے وہ سٹوڈنٹس ہیں جو اس سال کے ابتدائی مہینے میں داخلہ ٹیسٹ کلیئر کر چکے ہیں اور اپنے کلاسز کے باقاعدہ آغاز کے منتظر در بہ در ٹھوکر کھا رہے ہیں۔

عام انتخابات 2013 کے بعد بننے والی حکومت بلوچستان نے تین نئے میڈیکل کالج کی منظوری دی، جسمیں مکران میڈیکل کالج تربت، جھالاان میڈیکل کالج خضدار اور لورالائی میڈکل کالج شامل ہیں، جن کے باقاعدہ کلاسز کا آغاز پچھلے سال سے کر دیا گیا ہے۔ سال 2019 کے batch کیلئے فروری 2019 کو بولان میڈیکل کالج کوئٹہ کی زیر نگرانی داخلہ ٹیسٹ منعقد کرائے گئے، جس میں بڑی تعداد میں میڈیکل کے خواہشمند سٹوڈنٹس نے ٹیسٹ دیئے اور اپنی اپنی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ محکمہ تعلیم کی جانب سے کئی تاخیری حربے استعمال کرنے باوجود کامیاب طلباء منتظر رہے کہ انکے کلاسز شروع کیئے جائینگے مگر تاحال فائنل میرٹ لسٹ کا اجراء بھی نہیں کیا گیا ہے۔ حالانکہ اب اگلے Batch کیلئے داخلہ ٹیسٹ کی تاریخ کا اعلان بھی کیا جا چکا مگر یہ batch ابھی تک اپنے کلاسز کے آغاز کے انتظار میں حیران و پریشان بیٹھے ہیں۔ میرٹ لسٹ کی عدم اجراء کا یہ عُرض پیش کیا جا رہا ہے کہ یہ تین نئے میڈیکل کالجز ابھی تک پی-ایم-اینڈ-ڈی-سی سے رجسٹرڈ نہیں ہیں اس لئے ان میں تعلیمی سلسلے کا آغاز نہیں کیا جا سکتا۔

نئے میڈیکل کالجز کے کامیاب امیدواروں کا اس ردعمل میں کہنا ہے کہ اگر یہ ادارے رجسٹرڈ نہیں تھے تو ان میں پچھلے سال سے کلاسز کا آغاز کیوں کیا گیا اور اس سال نئے طلباء سے انٹری ٹیسٹ کا دھوکہ کیونکر کیا گیا۔ اب جب میڈکل کالجز پچھلے سال سے فنکشنل کیئے جا چکے ہیں تو ان میں باقاعدہ ریگولر کلاسز شروع کیئے جائیں اور طلباء کا وقت ضائع کیئے بغیر ان کی تعلیمی سال کا آغاز یقینی بنایا جائے۔ انہی مطالبات کے پیش نظر سٹوڈنٹس نے کوئٹہ پریس کلب کے باہر پچھلے ایک ہفتے سے احتجاجی کیمپ لگایا ہوا ہے اور بولان یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز سمیت محکمہ تعلیم کی ناروا سلوک کو بے نقاب کرتے ہوئے حکومت سے داد رسی کی اپیل کر رہے ہیں۔ مگر تاحال حکومت کی جانب سے کوئی خاطرخواہ ریسپانس دیکھنے میں نہیں آیا ہے۔

بدقسمتی سے بلوچستان کے سٹوڈنٹس کو تعلیم جیسی بنیادی حق بھی آسانی سے میّسر نہیں۔ پرائمری سے لیکر پی ایچ ڈی تک قدم بہ قدم لڑ لڑ کر یہ حق چھیننا پڑتا ہے۔ کہیں بنیادی تعلیمی مراکز سرے سے وجود نہیں رکھتے تو کہیں ان مراکز میں تعلیم دینے والے اساتذہ دستیاب نہیں۔ کہیں تعلیمی نشستوں پر ڈاکے پڑ رہے ہیں تو کہیں بدانتظامی و بے ضابطگی کے حربے استعمال کرکے بنیادی حقوق کا استحصال کیا جا رہا ہے۔ ہر نئے سال پر نئے چیلنجز اور دیواریں طلباء کے آگے کھڑے کر دیئے جاتے ہیں۔ کبھی سکالرشپ ختم کیئے جاتے ہیں تو کبھی فیسوں میں بے دریغ اضافہ کرکے روڑے اٹکائے جاتے ہیں۔ جبکہ ان بنیادی مسائل پر زبان درازی کرنے پر سٹوڈنٹس کو دہشت گردی کے الزامات میں پابند سلاسل کرنے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کی جاتی۔

پچھلے سال بولان میڈیکل کالج کے منعقد کردہ انٹری ٹیسٹ میں کھلے عام بے ضابطگی کے شواہد سامنے آئے، جس کے خلاف طلباء نے ایک مہینے سے زائد تک کوئٹہ پریس کلب کے باہر کیمپ لگا کر احتجاجی مظاہرہ کیا، پولیس سے ڈنڈے کھائے اور عدالتوں میں چکر کاٹے مگر کہیں سے بھی انصاف نہیں ملا۔ اب کی بار ٹیسٹ کی بے ضابطگیوں اور اقرباء پروری کو نظرانداز کرکے کامیاب امیدواران اپنے کلاسز کے آغاز کا مطالبہ کر رہے ہیں، مگر پھر بھی حسبِ روایت تاخیری حربے استعمال کرکے طلباء کو مایوسی کی دلدلوں میں دھکیلا جا رہا ہے۔ آخر اس سے بڑی بدبختی اور کیا ہو سکتی ہے کہ بلوچستان کے بچے تعلیم کے مواقع پانے کیلئے بھی سراپا احتجاج ہیں مگر حکمران اس بنیادی حق کو بھی تسلیم کرنے میں کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کرتے۔

سوشل میڈیا پر چلنے والی موجودہ حکومت بلوچستان کی تمام انجی اوٹک ایشوز پر ظاہری دکھاتے ہوئے نظر آتی ہے مگر مجال ہے کہ ایسے حقیقی مسائل پر کوئی نوٹس لے۔ اپوزیشن کی بھی حالت زار کچھ بہتر نہیں ہے، وہ بھی پارلیمان میں کھڑے ہو کر سوشل میڈیا پر اپلوڈ کرنے کیلئے کلپ ہی ریکارڈ کرواتے دکھائی دیتے ہیں۔ جبکہ بلوچستان کے گلی کوچے اور سڑکیں ہزاروں لاکھوں مسائل کی منظر کشی کرتے ہیں اور بلوچستان باسی سڑکوں پر پڑے دہائیاں دے رہے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ بلوچستان کی غمخواری کے دعویدار جماعتیں مستقبل کے ان معماروں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوتے اور انکی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے مسائل حل کراتے۔ مگر ایسی نیّت انہیں کہاں؟ آخر، ہم تعلیم کے حق سے کمتر کیا مانگیں؟

حکومت کی جانب سے کیمپسز میں سیاسی سرگرمیوں پر باقاعدہ پابندی عائد کرکے طلباء کی سیاسی شعور پر قدغن لگائے جا چکے ہیں۔ مگر اس نظام میں بیشمار غفلتوں کے نتیجے میں طلباء کو مجبوراً سیاسی راہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔ طلباء کیلئے تعلیمی اداروں میں تنظیم سازی اور سیاسی ایکٹیوٹیز پر تو پابندی عائد کی جا چکی ہے مگر ان احتجاجی کیمپوں میں بیٹھے یہ نوجوان تیز ترین سیاسی شعور پا لینگے۔ جتنا انہیں مایوس کرنے کیلئے تاخیری حربے استعمال کیئے جائینگے یہ اتنا ہی زیادہ پختہ اور فولادی قوت بنیں گے۔ مستقبل کے طبی مسیحاؤں کیلئے ناگزیر بنا دیا گیا ہے کہ وہ سماجی مسیحائی کا درس سڑکوں سے لے آئیں۔ سیاسی سرکلوں سے اپنے شعور کی مضبوط آبیاری کریں کیونکہ آج کی نوجوان نسل کو تعلیمی سفر میں ایک نہیں متعدد چیلنجز کا سامنا ہے۔

جب بنیادی حقوق غصب ہوں تو آخر اور کونسے طریقہ کار بچتے ہیں سوائے سیاسی مزاحمت کے۔ اپنے بنیادی حقوق کے حصول کیلئے سیاسی جدوجہد طلباء کا جمہوری حق ہے اور اس جمہوری حق پر ڈاکہ زن حکمرانوں کے ناجائز پابندیوں کو طلباء ماننے سے منکر ہیں۔ عہد کا تقاضہ ہے کہ طلباء اپنے جمہوری حقوق کی خاطر کیمپسز میں سٹوڈنٹس یونین کی بحالی اور تنظیم سازی کی آزادی کا بھرپور مطالبہ پیش کریں تاکہ یونین کی بحالی کی صورت میں ایسے بے ضابطگیوں و نا انصافیوں کا راستہ روکا جا سکے۔ طلباء اتحاد اور منظم فکری جدوجہد ہی ان تمام جنجالوں سے نجات کا راستہ ہموار کر سکتی ہے۔ آئیے ملکر اپنے حقوق کی حصول کا آخری معرکہ لڑ لیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔