عالمی جوہری ادارے آئی اے ای اے نے کہا ہے کہ ایران نے 2015 کے عالمی جوہری معاہدے میں مقرر کی گئی کم افزودہ یورینیم کی مقررہ حد سے زیادہ یورینیم ذخیرہ کر لی ہے۔
انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کا کہنا ہے کہ اس کے معائنہ کاروں نے تصدیق کر دی ہے کہ تین سو کلو کی جو حد طے کی گئی تھی ایران نے اسے عبور کر لیا ہے۔
ادھر امریکہ کا کہنا ہے کہ اس کی ’زیادہ سے زیادہ دباؤ کی حکمتِ عملی جاری رہے گی۔‘ امریکی صدر کے دفتر کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ ایران کو کسی بھی سطح پر یورینیم کی افزودگی کی اجازت دینا ایک غلطی تھی۔
ایران نے مئی میں یورینیم کی افزودگی میں اضافہ کیا تھا۔ یہ یورینیم جوہری بجلی گھروں میں ایندھن کے طور پر استعمال ہوتی ہے لیکن اسے جوہری بموں کی تیاری میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
ایران نے اس وقت کہا تھا کہ وہ یہ قدم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے جوہری معاہدے سے علیحدہ ہونے کے بعد پابندیوں کی بحالی کے اعلان کے جواب میں اٹھا رہا ہے۔
برطانیہ اور جرمنی ایران سے مطالبہ کر چکے ہیں کہ وہ اپنا یہ فیصلہ واپس لے۔ یورپی اقوام نے ایران کو خبردار کیا تھا کہ اسے جوہری معاہدے کی خلاف ورزی کے نتائج بھگتنا پڑیں گے اور اس معاہدے کے تحت وہ پابندیاں بھی دوبارہ لگائی جا سکتی ہیں جو ایران کی جانب سے جوہری سرگرمیاں محدود کرنے پر اٹھائی گئی تھیں۔
ایران کی جانب سے یہ قدم ایک ایسے موقع پر اٹھایا گیا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں حالات ویسے ہی کشیدہ ہیں اور ایران نے حال ہی میں آبنائے ہرمز کے اوپر پرواز کرنے والے ایک امریکی ڈرون کو مار گرایا ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ نے ایران پر تیل بردار بحری جہازوں پر حملے کرنے کے الزامات بھی لگائے ہیں۔