اگر جارج واشنگٹن دہشت گرد نہیں تھا تو بلوچ بھی دہشت گرد نہیں ہیں – ڈاکٹر اللہ نظر کا امریکی صدر کے نام خط

869

بلوچ آزادی پسند رہنماء اور بلوچستان لبریشن فرنٹ کے سربراہ ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ نے امریکی صدر ٹرمپ کے نام اپنے لکھے گئے خط میں کہا کہ تصور کریں کہ امریکہ کا آج کیا ہوتا، اگر فرانس  اور دیگر یورپی طاقتیں 1776ء میں انگلستان کے ساتھ ملکر وہاں کے آبادکاروں کو دباتے، جارج واشنگٹن اور دیگر رہنماؤں کو دہشتگرد قرار دے دیتے؟ ایسی صورت میں، بجائے جمہوریت اور ترقی کا پیش خیمہ ہونے کے، آج بھی امریکہ کی حیثیت ایک کالونی کی ہوتی۔

بلوچ رہنماء نے کہا کہ اگر جارج واشنگٹن دہشت گرد نہیں تھا تو بلوچ بھی دہشت گرد نہیں ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم بلوچ پچھلی سات دہائیوں سے چھری اور کلاشنکوف لیکر حکومت پاکستان کی دہشت گردی کیخلاف برسرپیکار ہیں۔ امریکی امداد کی بدولت جدید ہتھیاروں سے لیس پاکستانی فوج نے اب تک ہزاروں کی تعداد میں بلوچوں کو جبری طور پر اغواء کیا اور پھر اُن کو اذیتیں دے کر موت کے گھاٹ اتارا ہے۔ پاکستانی افواج ہمارے مُردوں کے اعضاء نکال کر بیچ رہے ہیں، ہماری عورتوں کی عصمت دری کر رہے ہیں اور ہمارے گاؤں کے گاؤں جلا کر ہمیں نیست و نابود کررہے ہیں۔

بلوچ رہنماء نے امریکی صدر کے نام خط میں آگے لکھا کہ پاکستان جو جنگی جہاز اور دیگر اسلحہ بلوچ آبادیوں پر استعمال کر رہا ہے، یہ بھی آپ کے پیشروؤں نے انہیں فراہم کیے ہیں، مگر آپ نے تو ان کو بھی مات دے دی۔ آپ کی انتظامیہ نے ہمیں دہشت گرد قرار دے دیا ہے۔ کیا صرف اس لیے کے ہم پاکستان اور چین کو اپنے وسائل لوٹنے سے باز رکھنے کی تگ و دو کر رہے ہیں؟ اور یقیناً ہم رکنے والے نہیں ہیں، حتیٰ کہ اگر آپ کی انتظامیہ ہر ایک بلوچ فرد کو دہشت گرد کیوں نا قرار دیدے۔ ہم اپنے چھری اور کلاشنکوفوں سے لڑتے رہیں گے۔

انہوں نے کہا کہ یہ باعث شرمندگی ہے کہ سیکولر اور لبرل دنیا کا سب سے بڑا سرپرست آج بلوچ قوم کے سر پر دست شفقت رکھنے میں بری طرح ناکام ہو گیا ہے اور بلوچ اس خطہ میں وہ واحد قوم ہے جو مذہبی انتہا پسندی کیخلاف برسرپیکار ہے۔

ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ مزید لکھا کہ دنیا ہم سے کیا آس لگائے بیٹھی ہے؟ آپ حتیٰ کہ اپنے ایک سکے مفاد کے لئے بھی خونی جنگیں لڑ رہے ہو اور ہم سے یہ امید رکھتے ہو کہ ہمارا سونا، چاندی اور گیس کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جائے اور تب بھی ہم خاموش رہیں؟ ہمارا ساحل سمندر دوسروں کی سلطنت تعمیر کرنے کیلئے استعمال ہو اور تب بھی ہم ہی دہشت گرد ٹھہرے؟

بی ایل ایف سربراہ نے کہا کہ جس بات نے مجھے انگشت بدنداں کردیا ہے وہ یہ ہے کہ آج تک ہم نے کسی ایک بھی امریکی شہری کو نقصان نہیں پہنچایا ہے لیکن پھر بھی آپ کی انتظامیہ نے ہم پر پابندی عائد کر دی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اس پابندی کا مقصد طالبان کو مذاکرت کی میز پر لانے کیلئے راضی کرنا ہو، یا کوئی اور مقصد، یہ سیاست کا حصہ ہے۔ اس بات کو میں سمجھتا ہوں۔

مگر پھر بھی قطعاً ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ دنیا کے لیڈران اپنے چھوٹے چھوٹے فروعی مفادات کیلئے سیکولر نظریے کو ہی رہن کرکے رکھ دیں۔ جب آپ اپنے فروعی مفادات کیلئے، اپنے فطری اتحادی یعنی بلوچ قوم کو ایک طرف کرکے رکھ دیاہے، آپ کے دشمن بھی آپ کو ایک طرف کرنے میں دیر نہیں لگائیں گے۔ آپ کی پاکستان کیساتھ دوستی کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، مگر اپنی بنیادی روایات اور اپنے ملکی آئین کا سودا بھی مت کیجئے۔

اپنے خط کے اختتام پر بلوچ رہنماء نے لکھا کہ میں اپنے اس خط کا اختتام آپ کو یہ بتانا چاہوں گا کہ آپ کے ملک کی وہ کون سی خوبی ہے جو مجھے سب سے زیادہ پسند ہے۔ مجھے امریکیوں کی احساسِ مزاحمت بے پناہ اچھی لگتی ہے۔ امریکی باشندوں نے دنیا پر، ایک بار 1941 اور پھر 2001 میں، یہ ظاہر کیا کہ انہیں دوسروں کے ہاتھوں قتل ہونا قطعاً پسند نہیں۔

اور آپ معلوم ہے کہ مجھے بلوچوں کی کون سی بات سب سے زیادہ پسند ہے؟ انہیں بھی دوسروں کے ہاتھوں قتل ہونا پسند نہیں۔

واضح رہے کہ امریکی صدر کے نام بلوچ رہنماء کا خط امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے اس فیصلے کے بعد آیا جب بلوچ لبریشن آرمی کو عالمی دہشت گردی کی فہرست میں شامل کرلیا ۔