الفاظ، احساس، شعور وُ کردار
تحریر: حیراف بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
کیا ہم اپنے کہے ہوئے الفاظ کے ذمہ دار ہیں؟ اپنے کردار کے جوابده تو سب ہیں مگر کیا کوئی اپنی لکهی گئی تحریروں کا بهی جوابده ہے یا ہوگا؟ کہتے ہیں کہ قوموں کے عروج اور زوال میں دانشوروں اور ادیبوں کا کلیدی کردار ہوتا ہے، مگر ہمارے دانشور حضرات کہاں ہیں؟
همارے دانشور حضرات تو دِکهائی بهی نہیں دیتے، ہاں کبهی سوشل میڈیا پر ضرور آتے ہیں اور معاملات میں پهوٹ ڈال کر غائب ہوجاتے ہیں، کیا ہم جنہیں دانشور سمجھتے ہیں، وه واقعی داشور ہیں بهی یا اپنے منہ میاں مِٹھو ہیں؟ آخر کیوں ہمارے دانشور حضرات اپنے الفاظ کے جوابده نہیں؟ کیا یہ ایک مثبت عمل ہے؟
ہمارے ہاں چند خود ساختہ دانشور اور رہنما پائے جاتے ہیں، جو موقع فہم تو ہیں، مگر ایک دوسرے کے خلاف کیونکہ دراصل اُنہیں اپنی کہی یا لکهی ہوئی باتوں پر کوئی جوابده نہیں ٹہراتا، اسلیئے ہم شاید یہ سمجھتے ہیں کہ الفاظ کی کوئی اہمیت نہیں. جو بهی ہے سب کردار ہے۔
چلیئے ہم الفاظ کی اہمیت پر آپنے بساط کے مطابق غور کرتے ہیں، یہاں ہمیں ایک چیز سمجھنا چاہیئے کہ الفاظ ہی کردار بناتے ہیں. الفاظ ہی حضرتِ انسان کو انسان بننے اور بنانے کا درجہ دیتے ہیں۔ سوچیئے اگر الفاظ نہ ہوتے تو حضرتِ انسان کا کیا بنتا؟ حضرتِ انسان تو دو پیروں پہ چلنے والا ایک خطرناک اور جان لیواه جانور ہوتا۔
جنگل کا ایک اصول ہوتا ہے کہ جب کوئی مرتا ہے تو کسی کا پیٹ بهرتا ہے. مگر حضرتِ انسان کے وادیوں اور بسیروں کا اس سے بهی بُرا حال ہوتا کیونکہ حضرتِ انسان کی فطرت ہے کہ وه ہر چیز کو ضرورت سے زیاده چاہتا ہے یا یوں کہیں کہ وه ہمیشہ مقدار کو ضروریات سے کمتر محسوس کرتا ہے کیونکہ حضرتِ انسان میں کمال درجے کا حرص اور لالچ پایا جاتا ہے اور یہی لالچ ہی انسان اور انسانیت کے تباہی کا موجب بنتا اگر الفاظ نہ ہوتے.
انہی الفاظ نے ایک دوسرے کو سمجھنے میں حضرت انسان کی مدد فرمائی اور اِسی مہلک لالچ کو انسان کی تباهی کے بجائے ترقی میں بدل ڈالا ہے، یہاں شاید لوگ میری باتوں سے اختلاف رکهیں، کہ جی! آپ تو احساس اور شعور کو الفاظ کا نام دے رہے ہیں۔ مگر میں اس اَمر کی وضاحت کرتا چلوں کہ نہیں! احساس اور شعور کا مقام تو اسکے بعد آتا ہے کیونکہ الفاظ ہی شعور اور احساسات کو جنم دیتے ہیں.
میرے خیال میں حضرتِ انسان شعور اور احساسات کے ساتھ جنم نہیں لیتا، الفاظ ہی شعور اور احساسات کے سمت کو متعین کرتے ہیں اور الفاظ ہی اچهے اور بُرے کے معیار کو جنم دیتے ہیں، الفاظ ہی ہے جو شعور اور احساسات بن کر اُبهرتے ہیں اور پهر انہی کی ترجمانی بهی کرتے ہیں.اور احساس تو خود الفاظ کے محتاج ہوتے ہیں، اُنہیں پیدا کرنے میں الفاظ بنیادی حیثیت کے حامل ہیں اور پهر احساس کو دوسرے تک منتقل کرنے میں بهی الفاظ ہی کا بہت بڑا کردار ہوتا ہے۔
ایک چهوٹی سی مثال، اگر آپ کسی کو چاہتے ہیں، تو اس احساس کو آپ اُسے چوم کر نہیں سمجھا پائینگے. کیونکہ انسان کے اندر ایک حوس نامی شیطان کی بهی آپنی دُنیا ہے. شاید آپکا چوم لینا آپ کے حوس کی ترجمان بن بیٹھے، یہاں کچھ لوگ شاید پهر مجھ سے اختلاف رکهیں، کہ جی آپ نے تو الفاظ ہی کو سب کچھ بنا دیا تو کردار کیا ہے؟
میں بتاتا چلو کہ الفاظ ہی ہیں، جو شعور اور احساسات کو پیدا کرکے اُنہیں حرکات یا کردار کی طرف راغب کرتے ہیں.عمل کا تصور بنا شعور کے نا ممکن سی بات ہے کیونکہ کردار کا عمل تب شروع ہوتا ہے جب الفاظ آپنا کام کرکے احساس اور شعور کو جنم دے اور پهر یہی احساس اور شعور ہی کردار وُ اقوال بن کے سامنے آتے ہیں. مگر ایک مخصوص مدت تک اور کردار مر کے یا امر ہوکر پهر سے الفاظ بن کے زنده رہتے ہیں۔
جیسے چین کے بانی ماوزے تنگ فرماتے ہیں کہ بنا عمل کے الفاظ محض بکواس ہوتے ہیں، ہوتے ہونگے، مگر کب؟ تب، جب الفاظ آپنا کام کرکے شعور اور احساسات کو جنم دیں تب.
یہاں ایک اور بات غورے طلب ہے کہ آج ، ماوزے تنگ ، زنده نہیں اور نا ہی اُنکا کردار بظاہر موجود ہے. مگر اُنکا کردار الفاظ کی صورت میں زنده ہے اور ہمیشہ زنده رہیگا لکهنے کا مقصد یہ ہے کہ کردار کے ساتھ ساتھ ہمیں آپنے کہے ہوئے الفاظ کا بهی دِیہان رکهنا چاہیئے. سوچنا چاہیئے کہ ہمارے ہمارے الفاظ بهی ہمارے کردار کی عکاسی کررہے ہوتے ہیں، غور کرنا چاہیئے کہ ان دونوں میں تضاد تو نہیں پایا جاتا؟ کہیں ہمارے کردار پر ہمارے الفاظ کا داغ تو نہیں؟ یا کہیں ہمارے الفاظ پر ہمارا کردار خود ایک دهبہ تو نہیں؟ کیونکہ الفاظ زنده رہتے ہیں اور الفاظ پیچھا کرتے ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔