اقوام متحدہ کے مطابق رواں برس اب تک افغانستان میں عسکریت پسندوں کی بجائے نیٹو اور افغان فورسز کے ہاتھوں زیادہ عام شہری ہلاک ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ نے اسے ’چونکا دینے والی اور ناقابل قبول‘ صورتحال قرار دیا ہے۔
افغانستان میں اقوام متحدہ کے مشن کی طرف سے جاری ہونے والی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق سال رواں کے پہلے چھ ماہ میں افغانستان میں ہلاک اور زخمی ہونے والے عام شہریوں کی تعداد میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ زیادہ تر عام شہری نیٹو اور افغان فورسز کے فضائی حملوں اور رات کی تاریکی میں کی جانے والی کارروائیوں کے نتیجے میں ہلاک ہوئے۔
منگل کے روز جاری ہونے والی اقوام متحدہ کی اس رپورٹ کے مطابق رواں برس کی پہلی ششماہی میں 403 شہری افغان فورسز کے ہاتھوں مارے گئے جبکہ بین الاقوامی فورسز کے ہاتھوں مارے جانے والے افغان شہریوں کی تعداد 314 بنتی ہے۔ اس طرح مجموعی طور پر 717 عام شہری ہلاک ہوئے۔
عین اسی عرصے کے دوران طالبان اور داعش کے ہاتھوں 531 شہری ہلاک ہوئے۔ اقوام متحدہ کے مشن (یو این اے ایم اے) کے مطابق عام شہریوں کی مجموعی ہلاکتوں میں ایک تہائی تعداد بچوں کی ہے۔ اس لڑائی میں 327 بچے مارے گئے جبکہ زخمی ہونے والے بچوں کی تعداد 880 بنتی ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق فریقین نے عام شہریوں کی ہلاکتوں میں کمی لانے کے لیے اقدامات کرنے کا کہا ہے لیکن ابھی تک کی جانے والی کوششیں ناکافی ہیں۔ چند روز پہلے دوحہ میں افغان نمائندوں اور طالبان کے درمیان ہونے والے ‘انٹرا افغان مذاکرات‘ میں بھی عام شہریوں کی ہلاکتوں کی شرح ”صفر‘‘ تک لانے پر اتفاق کیا گیا تھا لیکن اس کے بعد بھی ہونے والے متعدد حملوں میں عام شہری مارے گئے ہیں۔
تاہم گزشتہ سال کی پہلی ششماہی کی نسبت رواں برس کی پہلی ششماہی میں عام شہریوں کی ہلاکتوں میں کمی واقع ہوئی ہے، جسے خوش آئند قرار دیا گیا ہے۔ عام شہریوں کی ہلاکتوں کے حوالے سے گزشتہ برس اب تک کا بدترین سال تھا۔ گزشتہ برس 3804 عام شہری مارے گئے تھے، جن میں ہلاک ہونے والے بچوں کی تعداد 927 تھی۔ ماہرین کے مطابق ‘حقیقی ہلاکتوں‘ کی تعداد اس سے بھی کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔ جنگ زدہ علاقوں میں ہلاکتوں کے متعدد واقعات رپورٹ ہی نہیں کیے جاتے۔