پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے ایک امریکی ٹیلی ویژن چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کی جانب سے دی گئی معلومات کی بنیاد پر ہی امریکہ القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو تلاش کر کے مارنے میں کامیاب ہوا۔
دو مئی 2011 کو خصوصی امریکی فورسز نے پاکستانی شہر ایبٹ آباد میں آدھی رات کے وقت حملہ کر کے اسامہ بن لادن کو مار دیا تھا۔ البتہ پاکستان اب تک سرکاری سطح پر اس بات سے انکار کرتا رہا ہے کہ اس کے پاس القاعدہ کے سربراہ کے بارے میں کوئی معلومات تھیں۔ ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن کے بعد پاکستان کو قومی سطح پر مشکل صورت حال کا سامنا کرنا پڑا تھا جبکہ پاکستان امریکہ تعلقات بھی خراب ہوئے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکہ کے پہلے دورے میں وزیراعظم عمران خان نے یہ دعویٰ فاکس نیوز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں اس وقت کیا جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا پاکستان جیل میں قید ڈاکٹر (شکیل آفریدی) کو رہا کر دے گا جس نے جعلی ویکسینیشن مہم چلا کر امریکہ کو 2011 میں اسامہ بن لادن کو تلاش کرنے میں مدد کی۔
عمران خان نے فاکس نیوز کے میزبان بریٹ بیئرکو بتایا:یہ بڑا جذباتی مسئلہ ہے کیونکہ پاکستان میں ڈاکٹرشکیل آفریدی کو جاسوس سمجھا جاتا ہے۔ ہم نے پاکستان میں اپنے آپ کو ہمیشہ امریکہ کا اتحادی سمجھا ہے اور اگر ہمیں اسامہ بن لادن کے بارے میں معلومات دی جاتیں تو ہم انہیں پکڑ لیتے۔
میزبان بیئر نے وزیراعظم عمران خان سے پوچھا کہ کیا وہ آئی ایس آئی کی بارے میں شک و شبہات کو سمجھتے ہیں جو اس کی جانب سے ضروری معلومات افشا کرنے کے حوالے سے پائے جاتے ہیں، تو انہوں نے کہا: پھر بھی یہ آئی ایس آئی ہی تھی جس نے وہ معلومات فراہم کیں جن سے اسامہ بن لادن کے ٹھکانے تک رسائی ہوئی۔ اگر آپ سی آئی اے سے پوچھیں، تو جواب ملے گا کہ آئی ایس آئی نے فون پر رابطے کے ذریعے اسامہ بن لادن کے ٹھکانے سے متعلق بنیادی معلومات دیں۔
یہ فوری طورپر واضح نہیں ہو سکا کہ وزیراعظم عمران خان کا حوالہ کس جانب تھا اور انہوں نے مزید تفصیل بھی نہیں دی۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان جانتا ہے کہ امریکہ کو شکیل آفریدی کی رہائی چایئے اور دونوں ممالک میں اس پر مذاکرات کیے جاسکتے ہیں۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ امریکہ میں قید پاکستانی شہری ڈاکٹر عافیہ صدیقی اور پاکستان میں قید ڈاکٹر شکیل آفریدی کا تبادلہ ممکن ہو سکتا ہے اور اگرچہ صدر ٹرمپ سے ملاقات میں اس معاملے پر بات نہیں ہوئی لیکن اس پر مستقبل میں مذاکرات ہوسکتے ہیں۔
اگرچہ پاکستان سرکاری طورپر انکار کرتا رہا ہے کہ اسامہ بن لادن اس کے علاقے میں مقیم تھے، آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اسد درانی نے 2015 میں ٹیلی ویژن چینل ’الجزیرہ‘ کو بتایا تھا کہ شائد آئی ایس آئی کو علم تھا کہ اسامہ بن لادن کہاں چھپے ہیں اور امید تھی کہ انہیں مارے جانے سے پہلے سودے بازی کے لیے استعمال کر لیا جائے گا۔
نائن الیون کے ماسٹرمائنڈ کو 10 سال کی کوششوں کے بعد اسلام آباد کے شمال میں واقع ایبٹ آباد میں تلاش کر لیا گیا تھا۔ ایبٹ آباد میں پاکستان کی فوجی اکیڈمی کا ہیڈکوارٹر بھی واقع ہے۔ اس وجہ سے الزامات لگائے گئے تھے کہ پاکستانی حکام دہشت گرد گروپ سے ملے ہوئے ہیں۔
2013 میں پاکستانی حکومت کی افشا ہو جانے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2001 میں امریکی قیادت میں افغانستان پر حملے کے بعد اسامہ بن لادن 2002 کے موسم بہار میں پاکستان آئے اور اگست 2005 میں ایبٹ آباد میں رہائش اختیار کر لی۔
اس رپورٹ میں پاکستان کی جانب سے اسامہ بن لادن کی موجودگی کا پتہ لگانے میں سرکاری سطح پر ناکامیوں کو ’گورننس امپلوژن سینڈروم‘ کا نام دیا گیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق ایک بار اسامہ بن لادن کو زیادہ رفتار سے گاڑی چلانے سے روکا گیا تھا اور یہ کہ انہیں کاؤ بوائے ہیٹ پہننا پسند تھا۔
2015 میں پاکستانی فوج کے دو سابق سینیئر افسروں نے اے ایف پی کو بتایا تھا کہ پاکستان کے خفیہ ادارے کے ایک منحرف افسر نے اسامہ بن لادن کی تلاش میں امریکہ کی مدد کی تھی۔ البتہ ان سابق فوجی افسروں نے اس بات کی تردید کی تھی کہ پاکستان اور امریکہ نے اس سلسلے میں سرکاری سطح پر مل کر کام کیا۔