‎غدار عید – ڈاکٹر صبیحہ بلوچ

737

‎غدار عید

تحریر: ڈاکٹر صبیحہ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

‎اس ملک میں غداروں کی فہرست کافی لمبی ہے، جہاں جسکا کوئی عمل گراں گذرا، غدار قرار دے دیا گیا۔ کبھی خاموشی کو غداری کا لقب ملا تو کبھی نعروں کی گونج کو، کبھی ساکن جو رہا غدار ہوا، کبھی چلتے ہوئے قافلے، غدار غدار غدار، نا اس لفظ کے لئے کوئی مفہوم اب تک بن پایا نہ اس غداری کو کوئی قانون بیان کر پایا، یہاں جسکا سکہ چلا حریف کو غداری کے کٹہرے میں لے آیا۔ اس لیئے آج تک عوام نے کسی کو غدار نہیں کہا، کیوںکہ یہاں عوام کو بولنے کا موقع ہی نہیں ملا، اگر اس عوام سے پوچھو، اگر ہم سے پوچھو کہ غدار کون ہے تو ایک فہرست اور بننی ہے، یہاں حقیقی غدار کوئی ہے تو بھوک غدار ہے، جو ہاتھ پھیلانے پہ مجبور کرتی ہے، جو جرم کرنے پر مجبور کرتی ہے، جو خاموش رہنے پہ مجبور کرتی ہے، یہ بھوک جو اشرافیہ کے نام نہاد خیرات کے لیئے کھینچ کر لے جاتی ہے اور انکے تصویروں کی زینت بنا دیتی ہے، یہ بھوک غدار ہے۔

یہ بیماریاں غدار ہیں، جو سکت سے مہنگی دوایاں چاہتے ہیں، یہ معصوم زندگیوں کو نگل جاتے ہیں، اپنوں کو مرتا دیکھ زندگیاں بچانے ہم اعلاناً بھیک مانگتے ہیں، سڑکوں پہ نکل جاتے ہیں، ایک ایک پائی جوڑ تے ہیں تو معلوم ہوتا ہے یہ اب قابل علاج نہیں رہا، وہ بیماریاں جو دُنیا کو آگے بڑھنے کے مسئلے میں ملے، ہمیں پیچھے رہ جانے کی وجہ سے مل رہے ہیں، یہ بیماریاں غدار ہیں۔

یہ سڑکیں غدار ہیں کہ جب ہم صبح گھر وں سے زندہ نکلتے ہیں، مگر لاش بن کر لوٹتے ہیں، کبھی جلے ہوئی لاشیں تو کبھی کچلی ہوئی، یہ سڑکیں غدار ہیں، ان پر حادثات غدار ہیں۔

یہ شوقءِ علم غدار ہے، یہ علم کی پیاس جو اپنے علاقوں میں بجھ نہیں پاتی، اپنے گھروں کو چھوڑ ہم دور چلے جاتے ہیں، اپنے والدین کے ساتھ بتانے کے لمحے علم کی تلاش میں لگاتے ہیں، سالوں سال ہم گھر نہیں جاتے، ماں باپ اپنا بُڑھاپا گُزار دیتے ہیں، مگر یہ علم کی جستجو ہمیں گھر کے پاس نہیں ملتی، گھر سے دور رہنا لازمی رہ جاتا ہے، یہ علم غدار ہے جو ہمیں گھر جانے نہیں دیتا۔

علم کے راہ میں چلتے چلتے کسی دن لاپتہ ہو جاتےہیں، کبھی گھر لوٹ جانے کی جستجو، اب کبھی لوٹ نہ آنے کی حقیقت میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ ہم لاپتہ ہوجاتے ہیں، یہ علم غدار ہے جسکی تلاش میں ہم لا پتہ کر دیئے جاتے ہیں۔

‎ جب ہم لاپتہ ہو جاتے ہیں، تو مائیں سالوں انتظار میں بیٹھ جاتے ہیں، ایک سال، دو سال، دس سال، یہ مائیں غدار ہیں، انکا انتظار غدار ہے، انکی آنکھیں انتظار میں تھکتے نہیں، آنسو بہا بہا کر نابینا ہو جاتے ہیں، آخر میں وقت نزاع آ پہنچتا ہے، یہ کسی سے حق بخشوانے کی التجاء نہیں کرتے، یہ اپنے ایمان کی سلامتی کے لیئے بھی دُعا نہیں کرتے، بس اس آخری لمحے میں بھی اپنے لال کو دیکھنے کی خواہش رکھتے ہیں، یہ مائیں غدار ہیں، انکی خواہشات غدار ہیں، انکا نہ ختم ہونے والا انتظار غدار ہے، انکی آہیں غدار ہیں۔

‎یہ بہنیں غدار ہیں، جو اپنے چادر کی پرواہ کیئے بغیر سڑکوں پہ آکر بیٹھ جاتے ہیں، وہ اپنے آنسوؤں سے تر دامن کو ہر ایک کے سامنے پھیلاتے ہیں، وہ سردی کی سرد ترین راتوں میں اور گرمی کی چلچلاتی دھوپ میں بھی اپنا احتجاج جاری رکھتے ہیں، یہ بہنیں مسلسل سوال کرتے رہتے ہیں کہ اگر انکا بھائی قصور وار ہے، اگر وہ اس قانون کے مطابق سزا کے مستحق ہیں، تو انہیں عدالتوں میں لے آئیں، وہ یہی سوال ہر ایک کے سامنے رو رو کرتے رہتے ہیں، مگر خالی ہاتھ لوٹ جاتے ہیں، یہ بہنیں غدار ہیں، انکی اُمیدیں غدار ہیں، انکے سوال غدار ہیں، انکے احتجاج غدار ہیں، انکے آنسو غدار، انکا غم غدار ہے۔

‎ یہ تہوار، یہ خوشیاں بھی تو غدار ہیں، ہر سال جب یہ آتے ہیں تو غموں کو کریدتے ہیں، یہ یاد دلاتے ہیں، اُن اپنوں کی جو اب ساتھ نہیں رہے، جو مار دیئے گئے یا لاپتہ ہوگئے ، جو اب بس تصویروں میں رہ گئے ہیں، یہ عیدیں یاد دلاتے ہیں، اُن اپنوں کی ،اُن ساتھ بتائے لمحات کی ، یہ عیدیں غدار ہیں، یہ تہوار غدار ہے اور تُم ۔۔۔۔۔تُم جو مبارک کہتے ہو ان عیدوں کو کیا تُم غدار نہیں؟ ہاں تُم بھی تو غدار ہو۔۔۔

ہم زمیں زادے، ہمیں معلوم ہے کہ کسی دن ہم بھی لاپتہ ہوجائینگے، ہم بھی غدار ہیں کیونکہ ہم بھی ان کے دُکھ میں شامل ہیں، ہمیں عید مبارک نہ کہنا اگر کہہ جاو تو تُم بھی غدار ہو۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔