کچکول، علم و شعور کا طالب
تحریر: ریاست خان بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
تربت سے مغرب کی جانب 2 گھنٹے کی مسافت پہ واقع وادی ہوشاب کا بلوچ تاریخ میں کوئی خاص مقام و نام نہیں رہا ہے، نہ اس علاقے کے لوگوں نے کبھی کسی سیاسی یا مزاحمتی تحریک میں اپنا حصہ ڈالا اور نہ ہی یہاں کی مٹی نے کسی ادیب و شاعر کو جنا. جہالت کے اندھیروں میں گم زندگی گذارنا یہاں آباد لوگوں کا خاصا ہوا کرتا تھا، منشیات فروشی سے لے کر ہر قسم کی سماجی برائیوں کا کبھی یہاں راج ہوا کرتا تھا. علم و شعور سے لوگوں کا دور تک کا واسطہ نہیں پڑا تھا. نیز علمی حوالوں سے ہر طرح سے ہوشاب بنجر ہی رہا ہے اور علم و ادب اور انقلاب سے نہ آشنا لوگوں کے بیچ علم و شعور کا پرچار کرنا کتنا مشکل کام ہوگا اس کی گواہی تاریخ سقراط کی دردناک شہادت کی صورت ہم پر آشکار کرتی ہے۔
انسانی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ سچ کو ثابت کرنے کیلئے ابن آدم نے ہمیشہ سچائی و شعور کی تشریح کرنے والوں کے خون کی مانگ کی ہے اور جو جو اس کڑی آزمائش پے پورے اترے، وہی ہی آدم کے اولادوں میں سچے جانے گئے. عیسیٰ مسیح صلیب پر چڑھائے جانے سے پہلے ایک پاگل قرار پائے تھے، جو دیومالائی قصے سنا کر لوگوں کو راہ غلط پر لے جانا چاہتے تھے، سقراط محض اس لیئے سماج کو قبول نہ ہوا کہ وہ سماج کے فرسودہ و بھونڈی تخلیقات پے سوال اٹھاتا.
1. ہوشاب کی گلیوں میں پلا بڑھا کچکول بھی علم و شعور کا طالب تھا، جو اپنے لوگوں کو خوف، لالچ و بزدلی کے اندھیروں سے نکال کر ان پر علم و شعور اور آزادی و انصاف کی روشنیاں آشکار کرنا چاہتا تھا. پر عالم و عاقل ثابت ہونے کیلئے جس طرح مسیح کو صلیب پے چڑھنا تھا، حسین کو تپتے ہوئے ریگستانوں میں جھلسنا تھا، ٹھیک اسی طرح کچکول کو بھی ثابت ہونے کے لئے آگ و خون کے دریا عبور کرنے تھے.
2. میں نے کچکول کے بچین سے جوانی تک کے سفر کو قریب سے دیکھا ہے، وہ اپنے ہم عمر نوجوانوں سے یکسر الگ ذہنیت کا مالک رہا ہے، اپنے ہم عمر لڑکوں سے زیادہ حساس و باعمل.
3. مجھے آج بھی یاد ہے کہ سولا سال کی عمر میں جب وہ عدل و آزادی کے نعرے بلند کرتا ہوا بازار کے بیچ سے گذرتا تو راستے میں بیٹھے جاہل و اندھی ذہنیت کے لوگ اسے پاگل و گنوگ کہتے. اسے جذبات کی رو میں بہہ جانے والا ایک باولا سمجتے پر وہ بغیر کسی کی پرواہ کیئے آگے بڑھتا، انہی لوگوں کو جو اسے کتنے ہی القابات سے نوازتے انہیں آزادی کا درس و غلامی کا شعور دیتا.
4. سامنے سے موجود جاہل سماج کی جہالت اور ظالم دشمن کی بربریت کے سامنے کتنے ہی شورویروں کی ویرتا پارہ پارہ ہو گئی پر کچکول کو میں نے ہمیشہ سب سے آگے ڪھڑا دیکھا، وہ ہمیشہ اکیلا کھڑا رہتا، وہ جاہل سماج سے الجھ بیٹھتا، حکم حاکم کو دو ٹوک لفظوں میں ٹال دیتا، نہ کسی کے جانے کا غم اس کے عزم کو توڑنے کی ہمت کر پاتا اور نہ ہی کسی کے آملنے کی امید کا وہ منتظر رہتا، دیوار حق کو لشکر بد سے دور رکھنے کی اس جنگ میں کوہ گراں کا درد اپنے سینے میں چھپائے وہ ہر وقت مسکراتا رہتا.
کہتے ہیں کہ خیالات، سوچ و کسی مخصوص معاملے پر اپروچ تب ہی مضبوط سے مظبوط تر ہونگے، جب انہیں عمل سے مربوط کیا جائے اور بھلا کچکول سے بڑا عملی شخص کوئی ہو سکتا تھا؟ جب تک کہ وہ تبلیغ کرسکتا، کرتا رہا، جب اس سے یہ آزادی چھین لی گئی تو کچکول پہاڑوں پے مورچہ زن ہو گیا اور اگلے پانچ سالوں تک انسان و بلوچ دشمن قوتوں سے دست و گریباں رہا.
پہاڑوں میں آکر اس کا علم مزید وسیع ہوتا گیا، شاید اس وجہ سے کہ یہاں اسے اپنے جیسے آزادی دوست، انصاف پسند و تبدیلی کے خواہاں بھائیوں کی صحبت نصیب ہوئی تھی، یہیں سے اس کے نظریات و افکار میں ارتقاء آیا. آزادی کیلئے قربانی دینے کا فلسفہ قربانی دینے تکالیف و مشکلات برداشت کرنے سے تبدیل ہو کر خود کو قربان کرنے پر منتج ہوا.
بارہ مئی کے دن کچکول اپنے سامنے تمام آزمائشوں کو پار کرتا ہوا سچا و مخلص ٹہرا اور ہر اس شخص کو انگشت بہ دنداں چھوڑ دیا جو اسے جذباتی و برین واشڈ سمجھتا تھا، اسی بارہ مئی کے دن سوالات کی ایک لمبی فہرست اپنے ہم عمر نوجوانوں و بلوچ سماج کے واسطے پیچھے چھوڑتا ہوا کچکول اپنے تین دیگر ساتھیوں کے ہمراہ تا ابد زندہ رہنے والوں میں شمار ہوا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔