لاپتہ افراد کا مسئلہ اور ڈرامہ حکومت نے شروع کیا ہے جو براہ راست دہشت گردی ہے۔ حکومت کے چاہیے کہ اگر کوئی شخص مجرم ہے تو انہیں عدالت میں پیش کرکے سزا دی جائے لیکن جبری گمشدگی کسی باشعور معاشرے میں قابل قبول نہیں ہے کہ کسی شخص کو لاپتہ کیا جائے اور پھر اس کی مسخ شدہ لاش اس کے لواحقین کو واپس کی جائے لہٰذا یہ عمل دہشت گردی ہے کیونکہ ایسی کوئی جرم ہی نہیں ہے کہ جس کی سزا جبری گمشدگی ہوں۔ ان خیالات کا اظہار سندھ کے علاقے میر پور خاص سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن سکندر علی نے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے قائم احتجاجی کیمپ میں لواحقین سے اظہار یکجہتی کے موقعے پر کیا۔
سکندر علی کا مزید کہنا تھا کہ کسی کو قومی دہارے میں لانے کے لیے یہ انتہائی منفی رویہ کسی طور قابل قبول نہیں ہے، ہم محب وطن لوگ ہیں اور تاریخ ہمارے محب وطنی کی گواہی دیتی ہے۔ ہمارے قربانیوں کے بدلے مسخ شدہ لاشیں مل رہی ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ نمائندہ کوئٹہ کے مطابق آج بروز سوموار کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے احتجاج کو 3630دن مکمل ہوگئے۔ جس میں نیشنل پارٹی کے سی سی ممبر گورگین بلوچ، بی ایس او پجار کے رہنماء ابرار برکت بلوچ، سماجی کارکن سکندر علی بلوچ، انسانی حقوق کے کارکن حمیدہ نور اور دیگر افراد نے شرکت کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی اور اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وی بی ایم پے نے اقوام متحدہ کی توجہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی جانب مبذول کراتے ہوئے مطالبہ کرتیہے کہ جنگی جرائم اورانسانی حقوق کے پامالیوں کے مرتکب ریاست پاکستان کے خلاف عالمی قوانین کے تحت کاروائی عمل میں لاتے ہوئے بلوچ قوم کو ریاستی ظلم و جبر سے نجات دلائی جائے۔
ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سے اپیل کی گئی تھی کہ بلوچستان میں جاری آپریشن، ماورائے آئین و قانون گرفتاریوں، گمشدگیوں، تشدد زدہ لاشیں ملنے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مرتکب ریاست کے خلاف کاروائی عمل لاتے ہوئے انہیں انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ وی بی ایم پی نے عید کے روز ریلی و مظاہرے کا انعقاد کیا تھا جس کا مقصد اقوام متحدہ سمیت عالمی برادری کی توجہ اس جانب مبذول کرانا تھا۔
انہوں نے کہا ہم تنظیم کے پلیٹ فارم سے اس امید کا اظہار کرتے ہیں کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں، بلوچ سیاسی کارکنان کی ماورائے آئین گمشدگی اور ان کے گولیوں سے چھلنی لاشیں پھینکنے کے واقعات کی روک تھام کے لیے نہ صرف ریاست پاکستان پر دباؤ ڈالیں گے بلکہ بلوچ قوم کو ظلم و جبر سے نجات دلانے کے لیے اپنا موثر اور کردار ادا کرینگے۔
احتجاجی کیمپ میں موجود انسانی حقوق کے کارکن حمیدہ نورنے لاپتہ عبدالحئی کرد کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عبدالحئی کرد کے لواحقین کئی مہینوں سے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاجی کیمپ آکر اپنا احتجاج ریکارڈ کررہے ہیں انہوں نے مظاہرے اور پریس کانفرنس کی لیکن عبدالحئی کرد تاحال بازیاب نہیں ہوسکے ہیں۔ عبدالحئی کرد کے لواحقین کو اس سے قبل یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ عید کے دنوں میں انہیں بازیاب کیا جائے گا لیکن وہ تاحال بازیاب نہیں ہوسکے ہیں۔
حمیدہ نور نے کہا علاوہ ازیں بلوچستان کے مختلف علاقوں میں جاری فوجی آپریشنوں میں عام آبادی زیادہ متاثر ہورہے ہیں جبکہ گوادر، پنجگور اور مکران کے علاقوں سے مزید لوگوں کو اٹھایا جارہا ہے، ان افراد کو شاید صرف اسی وجہ سے لاپتہ کیا جارہا ہے کہ وہ بلوچ ہے یا پھر ان کا تعلق مذکورہ علاقوں سے ہیں۔ سونا اگلنے والے سرزمین کے مالکوں کو صرف اس وجہ سے اٹھایا جارہا ہے کہ وہ اس سرزمین کے مالک ہیں۔
انہوں نے کہا کہ علی حیدر بلو چ کمسنی سے اپنے لاپتہ والد کے لیے آواز اٹھارہا تھا اور اب جوانی کی عمرکو پہنچتے ہی اسے اٹھایا گیا جس سے ریاست کی بوکھلاہٹ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے اور اس بوکھلاہت میں صحیح اور غلط میں تفریق کو بھی ریاست سمجھ نہیں رہی ہے جبکہ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق بلوچستان سے خواتین کو اٹھایا جارہا ہے جنہیں سیکس سلیو کے طور پر فوجی کیمپوں میں رکھا جارہا ہے جو گھٹیا قسم کا طریقہ کار ہے اور یہ ہمیں اکیسویں صدی میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔
حمیدہ نور نے کہا پاکستان نے بنگلہ دیش میں خواتین کے ساتھ جو عمل کیا تھا وہی کہانی بلوچستان میں دہرائی جارہی ہے لہٰذا یہ سلسلہ بند ہونا چاہیئے ہم اس کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہیں اور جتنی بھی انسانی حقوق کی پامالیاں ہورہی ہے ان کو ختم ہونا چاہیئے کیونکہ پاکستان یو ڈی ایچ آر (یونیورسل ڈکلریشن آف ہیومن رائٹس) کا ممبر بھی ہے اور باقی بھی جتنے ادارے وہ بلوچستان سمیت سندھ پاکستان کے دیگر علاقوں میں انسانی حقوق کے پامالیوں کا نوٹس لیں۔