کوئٹہ پریس کلب کے سامنے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے احتجاج جاری

112

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے احتجاج کو 3632دن مکمل ہوگئے۔ خاران سے تعلق رکھنے والے جیئند بلوچ اور گہرام بلوچ، بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنماء آغا خالد دلسوز نے کارکنان کے ہمراہ کیمپ کا دورہ کرے لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

آغا خالد نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ لاپتہ افراد اور عوام کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنا ہمارا قومی فرض ہے، بی این پی ماما قدیر بلوچ کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی ہے آخری لاپتہ شخص کے بازیابی تک بلوچستان نیشنل پارٹی کی جہدوجہد جمہوری انداز میں جاری رہیگی۔ ہم نے حکومت سے کہا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی بھی چیز میں ملوث ہوتی ہے تو ریاست کی اپنی عدالتیں ہے، اپنے عدالتوں، قانون اور اداروں پر بھروسہ کیا جائے وہ ان افراد کو وہاں پیش کیا جائے اگر کوئی شخص قصور وار ٹہرایا جاتا ہے قوانین کے تحت انہیں سزا دی جائے لیکن یہ کونسا قانون ہے کہ ریاست میں ایک شخص لاپتہ ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ گذشتہ دنوں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے کیمپ کو جلایا گیا جس کی ہم مذمت کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ ڈپٹی کمشنر اور دیگر متعلقہ حکام اس واقعے میں ملوث افراد کو گرفتار کرکے سزا دے، ہم جمہوری لوگ اور جمہوری جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں۔ہماری سب سے بڑی لڑائی لاپتہ افراد کی بازیابی ہے تاکہ لاپتہ افراد اپنے گھروں کو پہنچ جائے۔

وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچ قوم اب ذہنی غلامی سے نکل چکی ہے اب ماسوائے استعماری قوتوں کے حتمی منزل تک پہنچنے میں بڑی رکاوٹ قرار نہیں دیا جاسکتا ہے لیکن پاکستانی حکمران بھی بھانپ چکی ہے اس لیے وہ بلوچ قوم کی نسل کشی کو اپنی بقاء اور بالادستی کا آخری چارہ خیال کررہی ہے جس کا مظاہرہ بلوچ دیہاتوں اور شہروں میں آئے روز فوجی کاروائیوں اور اس میں عام بلوچوں خواتین، بچوں اور بوڑھوں سمیت ہر عمر اور شعبہ زندگی کے افراد کو نشانہ بنانے کی صورت میں دیکھا جاسکتا ہے جبکہ دوسرا طریقہ کار درندگی، سفاکیت کی مثال آپ ہے یہ حیوانی طریقہ اٹھاؤ اور پھینکو ہے جس کا سب سے زیادہ نشانہ ان بلوچ فرزندوں کو بنایا جارہا ہے جو نظریہ اور قلم سے لیس ہیں۔

انہوں نے کہا بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین نے پاکستان کے سپریم کورٹ سمیت دیگر عدالتوں میں اپنے پیاروں کے بابت ثبوت فراہم کیے اور ان کی اپنی انتظامیہ نے خود بھی عدالت میں ثبوت پیش کی کہ ان افراد کو فرنٹیئر کور اور دیگر اداروں کے اہلکار اٹھاکر غائب کررہی ہے جبکہ مقامی ڈیتھ اسکواڈ گروپوں کو بھی فرنٹیئر کور کی پشت پناہی حاصل ہے ان سب ثبوتوں کے باوجود سپریم کورٹ کے جج صاحب نے ان کے خلاف ریمارکس دینے اور کاروائی عمل میں لانے کی بجائے کہا کہ ان کو افراد کے اغواء میں فورسز ملوث نہیں ہے۔