کوئٹہ: لاپتہ افراد کی بازیاب کے لیے احتجاج کو3629دن مکمل

120

جب تک لاپتہ افراد کے لواحقین خود آکر اپنے پیاروں کے حوالے سے آواز نہیں اٹھائینگے ان کے حوالے سے کوئی ادارہ اقدام نہیں اٹھا سکتا ہے۔ وی بی ایم پی

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے احتجاج کو 3629دن مکمل ہوگئے۔ دالبندین سے سیاسی و سماجی کارکن لعل محمد بلوچ، نور محمد بلوچ اور دیگر نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی جبکہ مختلف افراد نے آکر اپنے لاپتہ پیاروں کے حوالے سے کوائف تنظیم کے پس جمع کیے۔

وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے اس موقعے پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا بلوچوں کی نسل کشی اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے مرتکب ریاست پاکستان کے خلاف کسی قسم کی کاروائی کی بجائے مختلف ممالک اور عالمی برادری اس کا ساتھ دے رہے ہیں جو باعث تشویش ہے۔ بلوچستان کے مختلف علاقوں سے سینکڑوں نہتے و بے گناہ بلوچ خواتین و بچوں کو نشانہ بنایا جاچکا ہے اور کئی افراد لاپتہ کیے گئے ہیں، پانی کے تالابوں اور جوہڑوں میں زہر ڈال دیا گیا ہے، ریاست اپنی قبضہ گیریت کو بلوچستان میں برقرار رکھنے کے لیے مسلسل فوج کشی کررہی ہے۔ماورائے قانون گرفتاریوں و گمشدگیوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ آج 47ہزار بلوچ فرزندان ریاستی عقوبت خانوں میں زندگی اور موت کی کشمکش میں ہے جبکہ دس ہزار بلوچ فرزندان کی گولیوں سے چھلنی مسخ شدہ لاشیں پھینکی گئی ہے۔

انہوں نے کہا ہم نے ہر فورم پر آواراز اٹھایا ہے، بلوچستان میں ریاستی ظلم و جبر اور بربریت کی وجہ دے لاکھوں بلوچ نقل مکانی کر چکے ہیں۔ ہم نے عالمی اداروں کی توجہ اس جانب مبذول کرائی ہے کہ وہ بلوچستان میں ماورائے آئین و قانون گرفتاریوں، گمشدگیوں، ریاستی ظلم و جبر اور انسانی حقوق کی پامالیوں کا نوٹس لیتے ہوئے بلوچ قوم کو نجات دلانے میں اپنا کردار ادا کریں لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اقوام متحدہ سمیت عالمی برادری بلوچستان میں انسانی حقوق کے بارے میں مکمل خاموشی اختیار کرچکے ہیں جو باعث تعجب ہے۔

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ فیس بک پر جاری کردہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ جب تک لواحقین اجازت کے ساتھ اپنے لاپتہ پیاروں کے پروفارمہ تنظیم کو لکھ کر کے نہیں دینگے، اس وقت تک تنظیم سیمت کوئی بھی ادارہ لاپتہ افراد کے کیسز میں کوئی قانونی کاروائی نہیں کرسکتا کیونکہ جب بھی جہاں بھی لاپتہ افراد کے کیسز بھیج دیئے جاتے ہیں تو ان کی طرف سے پہلا سوال یہی ہوتا ہے کہ لواحقین نے اجازت دی ہیں اور لاپتہ افراد کے حوالے سے ان کے لواحقین کی کیا تاثرات ہے۔

تنظیم کی جانب سے کہا گیا ہے کہ یہ دو سوال لاپتہ افراد کے کیسز میں بہت بڑی اہمیت رکھتے ہیں اور انہی دو سوالات کے صحیح جواب پر لاپتہ افراد کے کیسز کو اہمیت دی جاتی ہے اس لیے جبری گمشدگیوں کو روکنے اور لاپتہ افراد کو بازیاب کرنے کے لیے لاپتہ افراد کے لواحقین کو چاہیے کہ وہ ثبوت کے ساتھ خود سامنے آئے اور اپنے لاپتہ پیاروں کے کوائف لکھ کر کے تنظیم کو فراہم کرے۔

دریں اثنا لاپتہ لال محمد اور کلیم اللہ کے لواحقین ان کے حوالے سے تفصیلات سے بتاتے ہوئے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔ لواحقین کے مطابق لال محمد مری ولد پر خان مری اور کلیم اللہ ولد پل خان مری کو 5 جون 2015 کو فرنٹیئر کور اہلکاروں نے بولان کے علاقے لوہان سے اس وقت حراست میں لیکر لاپتہ کردیا جب وہ اپنے بھیڑ بکریوں کو چَرا رہے تھے۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ ہم گذشتہ کئی مہینوں سے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے آکر احتجاج کررہے ہیں لیکن ہمارے پیاروں کے حوالے سے کوئی معلومات نہیں مل سکی ہے۔ لال محمد اور کلیم اللہ کمسن ہے اگر انہوں نے کوئی گناہ کیا ہے تو انہیں منظر عام پر لاکر عدالت میں پیش کیا جائے۔