کوئٹہ: لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے احتجاج جاری

104

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے احتجاج کو 3636دن مکمل ہوگئے۔ وکلاء برادری کے وفد اور ڈیرہ غازی خان سے ذوالفقار بلوچ سمیت دیگر افراد نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے لانگ مارچ میں شرکت کرتنے والے ڈیرہ غازی خان سے تعلق رکھنے والے ذوالفقار بلوچ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں ماما قدیر بلوچ کی لاپتہ افراد کے حوالے سے جدوجہد کو خراج تحسین پیش کرتا ہے اور ریاست پاکستان جو لاپتہ افراد کے حوالے سے غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے کی مذمت کرتا ہوں۔ ہزاروں لوگ جبری طور پر لاپتہ ہے جو ایک غیر آئینی اور غیر قانونی عمل ہے، پاکستان کے آئین میں کوئی گنجائش نہیں ہے کہ آپ کسی کو ماورائے عدالت کسی ٹارچر سیل میں بند کریجبکہ میں انسانی حقوق کے بین الاقوامی اداروں سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ بلوچ عوام کے اس حساس مسئلے پر توجہ دے اور بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے جدوجہد کرے کیونکہ اس مسئلے کے باعث بلوچستان کے حالات ابتر ہورہی ہے اور ہمارے مائیں، بہنیں سڑکوں پر بیٹھ کر اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے احتجاج پر مجبور ہورہے ہیں۔

وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے اس موقعے پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی ظلم و جبر کے سیاہ اور طویل راتوں کی تاریخ کے اوراق انگنت معلوم و نامعلوم وحشت ناک مظالم کی کہانیوں سے بھری ہوئی ہے جہاں نوجوانوں کے لہو کی چھینٹیں کبھی ریاستی عقوبت خانوں کے تاریک کوٹھڑیوں کے بے رحم دیواریوں، تو کبھی گلزمین کے خاک کا داستان سناتے ہیں۔ ایسی کئی راتیں ہمارے حصے میں آئی ہے، یہ تاریکی آج بھی ہمارے گرد منڈلارہی ہے، اس تاریکی نے ایک بار پھر اپنے شکنجوں میں بلوچ نوجوانوں کے جسموں کو جکڑ لیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں پاکستانی ڈیتھ اسکواڈ کے کارندے بلوچ عوام کے خلاف سرگرم ہیں جوکہ بلوچستان میں کھلے عام بلوچ عوام کے خلاف درندگی پر مشتمل کاروائی کررہے ہیں جس کا مظاہرہ، آواران، پیراندر، مشکے، قلات اور بولان میں کیا گیا ہے۔

ماما قدیر نے کہا ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے حالیہ جاری کردہ رپورٹ میں گذشتہ عرصوں کی طرح ایک مرتبہ پر پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا گیا لیکن جیسا کہ اب تک پاکستان کے حوالے سے عالمی ادارے صرف زبانی کلامی مذمت یا مطالبات کرنے تک محدود رہتے ہیں اس مرتبہ بھی ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پاکستان کی جانب سے دہشتگردی اور انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔