بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے قائم احتجاجی کیمپ کو 3613 دن مکمل ہوگئے۔ سیاسی رہنماء ڈاکٹر عبدالحکیم لہڑی اور دیگر افراد نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے اس موقع پر کہا کہ آج وی بی ایم پی کے پرامن جدوجہد اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہے۔ آج ہزاروں کی تعداد میں بلوچ فرزند زندانوں میں اذیتیں سہہ رہے ہیں، وہ زرینہ مری اور بی ایس او آزاد کے سابقہ وائس چیئرمین ذاکر مجید بلوچ اور دیگر ہزاروں افراد کی شکل میں اذیت خانوں میں موجود ہے۔
انہوں نے کہا تکلیف جب کسی کے ذات پر نہ آئے وہ دوسروں کی تکلیف کو نہیں سمجھ سکتا ہے۔ میں سوچتا تھا کہ کیوں لوگوں کو اغواء کیا جاتا ہے، اذتیں دی جاتی ہے لیکن اب معلوم ہوچکا ہے کہ کیوں اس طرح کی گھناؤنی حرکتیں انسان انسان کے ساتھ کرتے ہیں ایسے میں پتہ چلا کہ انسانوں کے احساسات اور جذبات ہوتے ہیں، وہ قومی احساس، غلامی اور ظلم و جبر کے خلاف اٹھنے والے جذبات کی شکل میں ہوتے ہیں جسے آج میں خود بلوچ فرزندوں کی شکل میں دیکھ رہا ہوں۔ بلوچ طالبعلم ذاکر مجید سے لیکر گدانوں، جونپڑیوں میں بسنے والے افراد، ادیب، ڈاکٹر، انجیئنر اور ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے ہر بلوچ فرزند اس غلامی کے خلاف جذبے سے سرشار دشمن کے ہر آنے والی کالی رات کو برداشت کرکے روشن صبح کے انتظار میں کاٹ رہے ہیں۔
ماما قدیر نے کہا ذاکر مجید بلوچ کو غلامی اور حقوق مانگنے کی پاداش میں پاکستانی فورسز نے زندانوں میں کئی سالوں سے بند کیا گیا ہے۔ ذاکر مجید بلوچ بھی ایک بھائی، ایک بیٹا ہونے کیساتھ ایک خاندان کا لاڈلا تھا جس کی ماں آج ایک امید کیساتھ ان کو دیکھنے کے لیے آنسوں بہا رہی ہے۔